قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الجَنَائِزِ (بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وقال النبي ﷺ: كلكم راع ومسئول عن رعيته فإذا لم يكن من سنته فهو كما قالت عائشة ؓ : لا تزر وازرة وزر اخرى وهو كقوله : وإن تدع مثقلة ذنوبا إلى حملها لا يحمل منه شيء وما يرخص من البكاء في غير نوح , وقال النبي ﷺ: لا تقتل نفس ظلما إلا كان على ابن آدم الاول كفل من دمها وذلك لانه اول من سن القتل .

1284. حَدَّثَنَا عَبْدَانُ وَمُحَمَّدٌ قَالَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَرْسَلَتْ ابْنَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ إِنَّ ابْنًا لِي قُبِضَ فَأْتِنَا فَأَرْسَلَ يُقْرِئُ السَّلَامَ وَيَقُولُ إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَمَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَرِجَالٌ فَرُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِيُّ وَنَفْسُهُ تَتَقَعْقَعُ قَالَ حَسِبْتُهُ أَنَّهُ قَالَ كَأَنَّهَا شَنٌّ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذَا فَقَالَ هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ التحریم میں فرمایا کہ اپنے نفس کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ یعنی ان کو برے کاموں سے منع کرو اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تم میں ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنے ماتحتوں سے پوچھا جائے گا اور اگر یہ رونا پیٹنا اس کے خاندان کی رسم نہ ہو اور پھر اچانک کوئی اس پر رونے لگے تو عائشہ ؓ کا دلیل لینا اس آیت سے صحیح ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کو بلائے تو وہ اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور بغیر نوحہ چلائے پیٹے رونا درست ہے۔ اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ دنیا میں جب کوئی ناحق خون ہوتا ہے تو آدم کے پہلے بیٹے قابیل پر اس خون کا کچھ وبال پڑتا ہے کیونکہ ناحق خون کی بنا سب سے پہلے اسی نے ڈالی۔

1284.

حضرت اسامہ بن زید ؓ  سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کی ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا فوت ہورہا ہے، آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں۔ آپ نے سلام کہتے ہوئے واپس پیغام بھیجا اور فرمایا: ’’(اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے) جواللہ نے لے لیا وہ اس کا تھا اور جو اس نے عطا کیا وہ بھی اسی کا ہے۔ اس کے ہاں ہر چیز کاوقت مقرر ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ صبر کرے اور ثواب کی طلب گار رہے۔‘‘ صاحبزادی نے پھر پیغام بھیجا اور آپ کو قسم دی کہ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور مزید چندلوگ تھے۔ بچے کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا جبکہ اس کا سانس اکھڑا ہوا تھا۔ راوی نے کہا:میرا گمان ہے کہ اس نے کہا:گویا وہ مشکیزہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی دونوں آنکھیں (یہ منظر دیکھ کر) بہنے لگیں توحضرت سعد ؓ  نے عرض کیا:اللہ کے رسول ( ﷺ )! یہ روناکیسا ہے؟آپ نے فرمایا:’’یہ رحمت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھا ہے۔اور اللہ تعالیٰ رحم کرنے والے بندوں ہی پر رحم کرتاہے۔‘‘