تشریح:
(1) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حدیث میں مذکور ابن سے مراد علی بن ابی العاص ؓ ہو سکتے ہیں جو حضرت زینب ؓ کے بطن سے تھے، لیکن مذکورہ حدیث کے کسی طریق میں ان کا ذکر نہیں ہوا۔ یا اس سے مراد عبداللہ بن عثمان ؓ بھی ہو سکتے ہیں جو حضرت رقیہ کے بطن سے تھے۔ جب وہ فوت ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں اپنی گود میں اٹھایا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر رحم کرتا ہے جنہیں دوسروں پر رحم کرنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد حضرت محسن بن علی ؓ ہوں جنہیں حضرت فاطمہ ؓ نے جنم دیا تھا۔ اہل علم کا اتفاق ہے کہ وہ صغر سنی ہی میں فوت ہو گئے تھے جبکہ رسول اللہ ﷺ بھی بقید حیات تھے۔ لیکن یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجنے والی حضرت زینب ؓ کے علاوہ کوئی دوسری لخت جگر ہو۔ صحیح بات یہ ہے کہ وہ حضرت زینب ؓ ہی تھیں اور وہ بچہ لڑکا نہیں بلکہ لڑکی تھی، جیسا کہ مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف حضرت امام بنت زینب کو لایا گیا۔ اور یہ بھی ایک روایت میں ہے کہ وہ حضرت ابو العاص ؓ کی دختر تھیں۔ اس وقت ان کا سانس اکھڑا ہوا تھا، جیسا کہ رکھے ہوئے مشکیزے میں کوئی چیز بولتی ہو۔ بعض روایات میں امیمہ کا لفظ آیا ہے۔ وہ بھی امامہ مذکورہ ہی ہیں، کیونکہ علمائے انساب کا اتفاق ہے کہ حضرت زینب ؓ کے بطن سے حضرت ابو العاص کے دو ہی بچے تھے۔ ایک علی اور دوسری حضرت امامہ۔ لیکن اس میں اشکال یہ ہے کہ علمائے تاریخ کا اس امر پر بھی اتفاق ہے کہ حضرت امامہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے بعد تک زندہ رہیں یہاں تک کہ حضرت فاطمہ ؓ کے بعد حضرت علی ؓ سے ان کا نکاح بھی ہوا اور حضرت على کی شہادت تک وہ ان کے ساتھ رہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کافی عمر تھی۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ حضرت زینب نے جو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا تھا کہ بچہ حالت نزع میں ہے اور اس کی روح قبض ہو رہی ہے، اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ قریب الموت ہے، کیونکہ روایت حماد میں ہے کہ بچہ موت کی حالت میں ہے۔ روایت شعبہ کے الفاظ یہ ہیں کہ میری بیٹی کا وقت مرگ آ پہنچا ہے۔ سنن ابی داود میں بیٹا یا بیٹی تردد کے ساتھ ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ وہ لڑکی تھی، لڑکا نہ تھا۔ اس کی تائید طبرانی کی روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت امامہ بنت ابی العاص ؓ کا مرض شدید ہوا اور وہ قریب المرگ ہو گئیں تو حضرت زینب نے اپنے والد گرامی رسول اللہ ﷺ کو بلوایا اور آپ بھی اسے حالت نزع میں دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے جس پر حضرت سعد ؓ نے سوال کیا، جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعے میں رسول اللہ ﷺ سے انتہائی اکرام کا معاملہ کیا ہے کہ اس وقت آپ کی تسلیم و رضا کی شان اور انتہائی رحمت و شفقت سے مجبور ہو کر آبدیدہ ہونے اور صاجزادی کے صبر و استقلال پر نظر فرما کر آپ کی نواسی کو کامل صحت و شفا عطا فرمائی اور بعد ازاں وہ طویل عرصے تک زندہ رہیں۔ آخر میں حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس عجیب و غریب معجزانہ واقعے کو رسول اللہ ﷺ کے معجزات میں بیان کرنا چاہیے تھا۔ (فتح الباري: 200/3)
(2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ نوحے کے بغیر رونے کی اجازت ہے، جیسا کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کے آبدیدہ ہونے کا ذکر ہے۔ بے ساختہ رونے پر نہ تو میت کو عذاب ہو گا اور نہ رونے والے ہی سے مؤاخذہ کیا جائے گا بلکہ اسے رسول اللہ ﷺ نے اللہ کی رحمت قرار دیا ہے۔ والله أعلم۔