تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ کسی کے مرنے یا مصیبت آنے پر رونا ایک فطری بات ہے۔ اس پر مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ البتہ ایسے وقت میں رخسار، پیٹنا، کپڑے پھاڑنا، یا زبان سے ناشکری کے کلمات کہنا منع ہیں۔ یہ صاجزادی حضرت ام کلثوم ؓ تھیں جن کا نو ہجری میں انتقال ہوا۔ اس سے مراد سیدہ رقیہ ؓ نہیں ہیں کیونکہ ان کی وفات کے وقت رسول اللہ ﷺ میدان بدر میں تشریف فرما تھے۔
(2) سیدہ ام کلثوم عرصہ دراز تک بیمار رہیں اور حضرت عثمان ؓ کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ وہ اس رات فوت ہو جائیں گی، اس لیے انہوں نے اس رات اپنی لونڈی سے جماع کر لیا، لیکن رسول اللہ ﷺ کو یہ پسند نہ تھا کہ وہ مریضہ بیوی جو قریب المرگ تھی ان کا خیال نہ کرتے ہوئے لونڈی کے ساتھ مشغول ہوں، چنانچہ عتاب کے طور پر ان کو قبر میں اترنے سے اشارے کے ساتھ منع کر دیا۔ کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ انہوں نے سیدہ ام کلثوم ؓ کے انتقال کے بعد یا بوقت وفات جماع کیا تھا یا انہیں صاجزادی کے انتقال کا علم تھا۔ رافضی حضرات غلط پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ نے موت کے بعد حضرت ام کلثوم ؓ سے جماع کیا تھا یا ان سے جماع کی وجہ سے موت واقع ہوئی تھی۔ حدیث میں اس کا اشارہ تک نہیں۔ امام بخاری ؒ نے ایک روایت میں ابن مبارک کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ اس کے معنی گناہ کرنے کے ہیں، یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کس نے آج رات کوئی گناہ کا کام نہیں کیا۔ (صحیح البخاري، الجنائز: حدیث: 1342) لیکن امام ابن حزم ؒ نے اس کی تردید فرمائی ہے۔ معاذاللہ! حضرت ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں ایسا دعویٰ کیونکر کر سکتے تھے کہ آج رات مجھ سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا ہے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ہمارے بیان کردہ معنی کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی ﷺ نے فرمایا: ’’قبر میں کوئی ایسا شخص نہ اترے جس نے آج رات اپنے اہل سے مقاربت کی ہو‘‘ تو حضرت عثمان ؓ ایک طرف ہٹ گئے۔ (فتح الباري: 203/3)