تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے شہید کی نماز جنازہ کے متعلق کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں دیا۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طرح کی احادیث پیش کر کے انہوں نے یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔ حدیث جابر سے نفی اور حدیث عقبہ بن عامر سے اثبات معلوم ہوتا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ زین بن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ غالبا امام بخاری ؒ شہید کے دفن ہونے کے بعد اس کی قبر پر نماز جنازہ کی مشروعیت ثابت کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ شہدائے اُحد کے دفن ہو جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی ہے، دفن ہونے سے قبل نہیں پڑھی۔ اس طرح دونوں احادیث کے ظاہر پر عمل ممکن ہے۔ (فتح الباري:267/3) ہمارے نزدیک معرکے میں شہید ہونے والے کی نماز جنازہ عام انسان کی طرح واجب نہیں بلکہ جائز ہے، جیسا کہ درج ذیل احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ ایک تو مذکورہ حدیث جسے امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے کہ ایک روز رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ نے شہدائے اُحد پر اس طرح نماز پڑھی۔ جیسا کہ میت پر پڑھی جاتی ہے۔ ٭ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ حضرت حمزہ کے پاس سے گزرے جن کا مثلہ کر دیا گیا تھا اور آپ نے شہدائے اُحد میں سے حضرت حمزہ ؓ کے علاوہ کسی کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث:3137) حضرت شداد بن ہاد ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شہید کو اپنے جبے میں کفن دیا، پھر اس کے سامنے کھڑے ہو کر اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (سنن النسائي، الجنائز، حدیث:1955) ان احادیث کے مقابلے میں حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شہدائے اُحد کو ان کے خونوں سمیت دفن کرنے کا کم دیا اور ان پر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ (4) ان احادیث کے پیش نظر ہمارا موقف یہ ہے کہ شہید کی نماز جنازہ پڑھنے یا نہ پڑھنے میں انسان کو اختیار ہے، لیکن زیادہ بہتر پڑھنا ہی ہے، کیونکہ دعا اور عبادت اجروثواب میں اضافے کا باعث ہے، البتہ شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا اس کے متعلق خیر القرون میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت زید بن حارثہ اور حضرت جعفر طیار ؓ مدینہ منورہ سے باہر جنگ موتہ میں شہید ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کو بذریعہ وحی اطلاع دی گئی، لیکن آپ سے یہ ثابت نہیں کہ آپ نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا ہو۔ ہمارے ہاں بڑی دھوم دھام سے شہید کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا رواج چل نکلا ہے اور اس کے لیے مندرجہ ذیل امور کی بجا آوری کو بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے: ٭ شہید کی غائبانہ نماز جنازہ کے لیے بڑے بڑے اشتہارات شائع کر کے درودیوار پر لگائے جاتے ہیں۔ ٭ مساجد اور دینی مراکز میں اس کے متعلق اعلانات کیے جاتے ہیں۔ ٭ کسی قد آور شخصیت کو غائبانہ نماز جنازہ کی امامت کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ ٭ علاقہ بھر سے لوگوں کو جمع کرنے کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔ ٭ خواتین کو وہاں لے جانے کے لیے بسوں کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ ٭ اس تقریب میں تقاریر کے لیے مقررین کو دعوت دی جاتی ہے۔ ٭ لوہا خوب گرم کرنے کے بعد خواتین و حضرات سے چندے کی بھرپور اپیل کی جاتی ہے۔ ٭ آخر میں جلدی سے شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھ کر عوام کو فارغ کر دیا جاتا ہے۔ اس انداز سے شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کے متعلق وہ حضرات خود بھی مطمئن نہیں ہیں اور انہیں اس کے متعلق شرح صدر نہیں۔ بہرحال ہمارے نزدیک مذکورہ بالا انداز سے شہید کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا محل نظر ہے۔ والله أعلم۔