تشریح:
عرب کے ہاں استنجا کا عمل عموماً ڈھیلوں سے ہوتا تھا۔ وہاں سے الگ ہوکر پھر پانی استعمال کرتے تھے۔ قضائے حاجت کے وقت پانی ساتھ لے جانا یا پانی اپنے نزدیک رکھ لینا دونوں ہی درست ہیں۔ اس سے پانی پاک ہی رہتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نےکمال ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی رکھ دیا۔ آپ کے سامنے اس کے متعلق تین راستے تھے: (الف)۔ بیت الخلا میں داخل ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی دے آتے۔ (ب)۔ سرے سے پانی ہی نہ دیتے۔ (ج)۔ پانی بیت الخلاء کے قریب رکھ دیتے تاکہ اس کے حصول میں سہولت رہے۔ پہلی دوصورتیں تو مناسب نہ تھیں کیونکہ اگر پانی دینے کے لیے بیت الخلاء میں جاتے تو یہ درست نہیں تھا، بالکل نہ دیتے تو یہ بھی مناسب نہیں تھا کہ آپ کو پانی لینے میں دقت ہوتی، اس لیے سب سےبہتر صورت یہی تھی کہ دروازے پر پانی رکھ دیا جائے چونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ خدمت بجا لا کر عقلمندی کا ثبوت دیا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ویسی ہی دعا فرمائی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے شرف قبولیت سے نوازا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حبر الامۃ اور ترجمان القرآن کے لقب سے مشہور ہوئے۔ (فتح الباري: 322/1)