تشریح:
(1) امام بخاری ؓ کا ان احادیث سے خریدوفروخت کے مسائل بیان کرنا مقصود نہیں کیونکہ اس قسم کے احکام تو کتاب البیوع میں بیان ہوں گے، اس مقام پر ایک اہم مسئلے کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ جب پھلوں میں پختگی نمایاں ہو جائے اور حاکم وقت کی طرف سے کوئی اندازہ کرنے والا اپنے اندازے سے عشر کا تعین کر دے جس کی وجہ سے غرباء و مساکین کا حق پھلوں میں بن جائے تو اس کے باوجود بھی انہیں فروخت کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ ان کا حق، یعنی عشر و زکاۃ اپنے دوسرے کسی مال سے ادا کر دے، نیز ایسے حالات میں فروخت کرنے سے صدقہ وغیرہ ساقط نہیں ہو گا۔ (2) واضح رہے کہ پھلوں وغیرہ کو فروخت کرنے کی تین صورتیں ہیں: ٭ پختگی کے بعد صرف پھل فروخت کیا جائے۔ ایسا کرنا جائز ہے، اس میں شرعا کوئی قباحت نہیں۔ ٭ پختگی کے بعد درختوں سمیت پھل فروخت کرنا، اس صورت میں صلاحیت سے پہلے بھی انہیں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ ٭ صرف درختوں کو فروخت کرنا، اس صورت میں پھل بھی خریدار کا ہو گا الا یہ کہ فروخت کنندہ پھل خود رکھنے کی شرط کرے۔ (3) کھیتی کی خریدوفروخت کی بھی یہ تینوں صورتیں ہوں گی، یعنی کھیتی میں صلاحیت پیدا ہونے کے بعد صرف پیداوار فروخت کرنا یا زمین سمیت اسے فروخت کرنا یا اکیلی زمین بیچنا۔ (عمدةالقاري:538/6)