تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے قبل ازیں اثبات شفعہ کے اسباب بتائے تھے اور اس عنوان میں اسقاط شفعہ کے اسباب سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب ایک شریک دوسرے پر شفعہ پیش کرے اور وہ نہ لے تو ایسا کرنے سے حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔ لیکن کچھ فقہاء کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے اس کا حق شفعہ ساقط نہیں ہوگا کیونکہ شفعہ تو ابھی واجب ہی نہیں ہوا۔ وہ بیع کے بعد واجب ہوتا ہے،اس لیے بیع سے پہلے یا بیع کے وقت اس کا جازت دینا کارگر نہیں ہوگا۔ لیکن یہ موقف صریح طور پر حدیث کے خلاف ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’شریک کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے دوسرے شریک کو اطلاع دیے بغیر اسے فروخت کردے اگر وہ چاہے تو اسے رکھ لے اور اگر چاہے تو اسے چھوڑ دے۔‘‘ (مسند أحمد:316/3) جب اطلاع دینے کے بعد شریک نے اسے نہیں رکھا تو حق شفعہ کس چیز کا باقی رہا۔اسی طرح جب شفعہ کرنے والے نے مشتری سے مشفوعہ خرید لیا ہویا خریداری کےلیے بات چیت کرے یا اس سے کرائے پر حاصل کرے یا وہ اپنا حصہ جس کے ذریعے سے شفعے کا حق پیدا ہوا تھا فروخت کردے یا وقف کردے تو ان تمام صورتوں میں حق شفعہ ساقط ہوجاتا ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمسائے کےلیے بھی حق شفعہ ہے کیونکہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے محلے میں حضرت ابو رافع ؓ کے دومکان تھے۔ ظاہر ہے کہ حضرت سعد ؓ ان میں شریک نہ تھے کیونکہ عمر بن شبہ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت سعد ؓ کے بلاط میں دومکان تھے ان کے درمیان دس گز کا فاصلہ تھا اور ان میں جو مسجد کے دائیں جانب تھا وہ حضرت ابو رافع کا مکان تھا جس کو حضرت سعد ؓ نے ان سے خریدا تھا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سعد ؓ ابو رافع ؓ سے مکان خریدنے سے پہلے ان کے ہمسائے تھے، ان کے شریک نہ تھے۔ (فتح الباري:552/4 ،553) بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ حضرت ابو رافع کا ذاتی عمل ہے۔ ممکن ہے کہ انھوں نے بطور نیکی اپنا مکان پڑوسی کو دے دیا ہو۔ لیکن اس سلسلے میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ محض ہمسائیگی کے ذریعے سے حق شفعہ ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے مشترک راستہ ہونا ضروری ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ہمسایہ اپنے ہمسائے کا شفعے میں زیادہ حق دارہے۔شفعے کی وجہ سے اس کا انتظار کیا جائے گا اگرچہ وہ غائب ہو بشرطیکہ دونوں کا راستہ ایک ہو۔ (مسند أحمد:303/3) صحیح بخاری کی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ جب حد بندی ہوجائے اور راستے جداجدا ہوجائیں تو پھر شفعے کا حق نہیں رہتا۔ (3) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں امام شافعی سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اس ہمسائے کو حق شفعہ ملتا ہے جو جائیداد میں شریک ہو دوسرے کے لیے نہیں لیکن اس حدیث سے امام بخاری ؒ کی تائید ہوتی ہے۔ (4) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام بخاری ؒ حضرت امام شافعی ؒ کے مقلد نہیں تھے۔