تشریح:
1۔ رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش ہونے سے پہلے حضر ت کعب بن مالکؓ کے دل میں شیطان نے طرح طرح کے خیالات ڈالے تھے کہ کوئی جھوٹا بہانہ کرکے دنیا کی ذلت سے نجات حاسل کرلی جائے جیسا کہ درج ذیل روایت میں اس کی تفصیل ہے، حضرت کعب بن مالک ؒ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! اگر میں آج آپ کے علاوہ کسی دنیا دار کے سامنے بیٹھا ہوتا تو کوئی نہ کوئی عذرگھڑ کر اس کی ناراضی سے بچ سکتاتھا۔ مجھے خوبصورتی کے ساتھ بات بنانے کا سلیقہ بھی خوب آتا ہے لیکن اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ اگرآج میں آپ کے سامنے کوئی جھوٹا عذر بیان کرکے آپ کو راضی کرلوں توبہت جلد اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کردے گا۔ اس کی بجائے اگر میں آپ سے سی بات بیان کردوں تو یقیناً آپ مجھ سے ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے اللہ تعالیٰ سے معافی کی پوری اُمیدہے۔ اللہ کی قسم! مجھے کوئی معذوری نہیں تھی۔ اللہ کی قسم! اس وقت سے پہلے میں کبھی اتنا فارغ البال اور خوش حال نہیں تھا، لیکن پھر بھی آپ کے ساتھ شریک سفر نہ ہوسکا۔ (فتح الباري:427/8)
2۔ الغرض امام بخاری ؒ نے یہ حدیث اس لیے بیان کی ہے کہ اس میں فضول عذر کرنے والوں کا واضح تذکرہ ہے بلکہ اس آیت کابھی حوالہ ہے جو بطور عنوان پیش کی گئی ہے۔ واللہ اعلم۔