قسم الحديث (القائل): قدسی ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ (بَابُ قَوْلِهِ {ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا})

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

4712. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَشَ مِنْهَا نَهْشَةً ثُمَّ قَالَ أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَهَلْ تَدْرُونَ مِمَّ ذَلِكَ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ يُسْمِعُهُمْ الدَّاعِي وَيَنْفُذُهُمْ الْبَصَرُ وَتَدْنُو الشَّمْسُ فَيَبْلُغُ النَّاسَ مِنْ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ وَلَا يَحْتَمِلُونَ فَيَقُولُ النَّاسُ أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ فَيَقُولُ بَعْضُ النَّاسِ لِبَعْضٍ عَلَيْكُمْ بِآدَمَ فَيَأْتُونَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَيَقُولُونَ لَهُ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى إِلَى مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ آدَمُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنْ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ يَا نُوحُ إِنَّكَ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ إِنَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنَّهُ قَدْ كَانَتْ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُونَ يَا إِبْرَاهِيمُ أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ لَهُمْ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنِّي قَدْ كُنْتُ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى فَيَأْتُونَ مُوسَى فَيَقُولُونَ يَا مُوسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى النَّاسِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُونَ يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ عِيسَى إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ قَطُّ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا فَيَقُولُونَ يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتِمُ الْأَنْبِيَاءِ وَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَقَعُ سَاجِدًا لِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي ثُمَّ يُقَالُ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُولُ أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي يَا رَبِّ فَيُقَالُ يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ مِنْ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنْ الْأَبْوَابِ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَحِمْيَرَ أَوْ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى

مترجم:

4712.

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت لایا گیا اور دستی کا حصہ آپ کو پیش کیا گیا۔ چونکہ آپ کو دستی کا گوشت بہت پسند تھا، اس لیے آپ نے اسے دانتوں سے نوچ نوچ کر کھایا۔ پھر آپ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار ہوں گا۔ کیا تمہیں علم ہے کہ یہ کس وجہ سے ہو گا؟ اللہ تعالٰی تمام اگلے پچھلے لوگوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع کر دے گا۔ اس دوران میں پکارنے والا سب کو اپنی آواز سنائے گا اور ان سب پر اس کی نظر پہنچے گی سورج بالکل قریب آ جائے گا، چنانچہ لوگوں کو غم اور تکلیف اس قدر ہوگی جو ان کی طاقت سے باہر اور ناقابل برداشت ہو گی۔ لوگ آپس میں کہیں گے: تم دیکھتے نہیں کہ ہماری کیا حالت ہو گئی ہے؟ کیا کوئی ایسا مقبول بندہ نہیں جو اللہ کے حضور تمہاری سفارش کرے؟ پھر وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ حضرت آدم ؑ کے پاس جانا چاہئے، چنانچہ سب لوگ حضرت آدم ؑ کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: آپ سب انسانوں کے باپ ہیں۔ اللہ تعالٰی نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور اپنی طرف سے خصوصیت کے ساتھ آپ میں روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، اس لیے آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کریں۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں؟ حضرت آدم ؑ فرمائیں گے: بلاشبہ آج کے دن میرا رب انتہائی غیظ و غضب میں ہے۔ اس سے پہلے کبھی اتنا غضبناک نہیں ہوا اور نہ آئندہ کبھی ہو گا۔ میرے پروردگار نے مجھے درخت سے روکا تھا لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، اس لیے مجھے تو اپنی فکر ہے۔ میں اپنی جان کی حفاظت چاہتا ہوں، لہذا تم کسی اور کے پاس جاؤ۔ تم نوح کے پاس جاؤ۔ چنانچہ سب لوگ حضرت نوح ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے نوح! آپ سب سے پہلے پیغمبر ہیں جو اہل زمین کی طرف مبعوث ہوئے اور اللہ نے آپ کو ’’شکر گزار بندے‘‘ کا لقب دیا۔ آپ ہی ہمارے لیے اپنے رب کے حضور سفارش کر دیں۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس حالت میں پہنچ چکے ہیں؟ (حضرت نوح ؑ) فرمائیں گے: بلاشبہ میرا رب آج بہت غضب ناک ہے۔ اس سے پہلے وہ کبھی ایسا غضبناک نہیں ہوا اور نہ اس کے بعد ہی اس طرح غضب ناک ہو گا۔ اللہ نے مجھے ایک دعا کی قبولیت کا یقین دلایا تھا جو میں نے اپنی قوم کے خلاف کر لی تھی۔ نفسي، نفسي، نفسي۔ آج مجھے اپنی ہی فکر ہے، لہذا تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ، ہاں حضرت ابراہیم کے پاس جاؤ، چنانچہ سب لوگ حضرت ابراہیم ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے ابراہیم! آپ اللہ کے نبی اور اس کے خلیل ہیں اور اہل زمین میں منتخب شدہ ہیں، لہذا آپ اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری سفارش کریں۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں؟ حضرت ابراہیم ؑ فرمائیں گے: آج میرا رب بہت غضب ناک ہے۔ اتنا غضب ناک نہ وہ پہلے ہوا تھا اور نہ آج کے بعد ہو گا۔ میں نے تین خلاف واقعہ باتیں کی تھیں ۔۔ راوی حدیث ابو حیان نے اپنی روایت میں ان تین باتوں کا ذکر کیا ہے ۔۔ نفسي، نفسي، نفسي۔ مجھے تو اپنی فکر ہے۔ تم میرے علاوہ کسی اور کے پاس جاؤ، ہاں حضرت موسٰی ؑ کے پاس جاؤ، چنانچہ سب لوگ حضرت موسٰی ؑ کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے موسٰی! آپ اللہ کے رسول ہیں۔ اللہ تعالٰی نے آپ کو اپنی طرف سے رسالت اور آپ سے گفتگو کرنے کی فضیلت دی۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کر دیں۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں؟ حضرت موسٰی ؑ کہیں گے: آج اللہ تعالٰی بہت غضبناک ہے۔ اتنا غضبناک تو وہ نہ پہلے کبھی ہوا تھا اور نہ آئندہ کبھی ہو گا۔ میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا جس کے قتل کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا۔ نفسي، نفسي، نفسي۔ بس مجھے آج اپنی فکر ہے۔ میرے علاوہ تم اور کسی کے پاس چلے جاؤ، ہاں حضرت عیسٰی ؑ کے پاس جاؤ، چنانچہ سب لوگ حضرت عیسٰی ؑ کے پاس آ کر عرض کریں گے: اے عیسٰی! آپ اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے اللہ تعالٰی نے حضرت مریم ؑ پر ڈالا تھا اور آپ اللہ کی طرف سے روح ہیں۔ آپ نے بحالت بچپن گود میں رہتے ہوئے لوگوں سے باتیں کی تھیں۔ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کریں۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں؟ حضرت عیسٰی ؑ فرمائیں گے: آج میرا رب بہت غصے میں ہے۔ وہ اس سے پہلے کبھی اتنا غضب ناک ہوا نہ آئندہ اس جیسا غضب ناک ہو گا۔ آپ اپنی کسی لغزش کا ذکر نہیں کریں گے۔ صرف یہ کہیں گے: میں اپنی جان کی حفاظت چاہتا ہوں۔ میرے علاوہ تم اور کسی کے پاس جاؤ، ہاں تم حضرت محمد ﷺ کے پاس جاؤ، چنانچہ سب لوگ حضرت محمد ﷺ کے پاس حاضر ہوں گے اور عرض کریں گے: اے محمد (ﷺ)! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اللہ تعالٰی نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دئیے ہیں۔ آپ اپنے رب کے حضور ہماری سفارش کر دیں۔ آپ خود ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ ہم کس حالت میں ہیں؟ آخرکار میں خود آگے بڑھوں گا اور عرش کے نیچے پہنچ کر اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا۔ پھر اللہ تعالٰی مجھ پر اپنے تعریفی کلمات اور حسنِ ثنا کے دروازے کھول دے گا جو اس نے مجھ سے پہلے اور کسی پر ظاہر نہیں کیے تھے۔ پھر کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیں اور سوال کریں آپ کو عطا کیا جائے گا۔ آپ سفارش کریں آپ کی سفارش قبول کی جائے گی، چنانچہ میں اپنا سر اٹھا کر عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت کو معاف کر دے۔ اے پروردگار! میری امت پر رحم کر۔ کہا جائے گا: اے محمد! اپنی امت کے ان لوگوں کو جن پر کوئی حساب نہیں، جنت کے دائیں دروازے سے داخل کریں۔ ویسے انہیں اختیار ہے دوسرے لوگوں کے ساتھ جس دروازے سے چاہیں داخل ہو سکتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت کے دروازے کے دونوں کناروں کا اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ اور حمیر یا مکہ اور بُصرٰی میں ہے۔"