تشریح:
(1) مذکورہ روایت میں بہت اختصار ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ جب مسلمان تعداد میں زیادہ ہو گئے تو انھوں نے ایک تجویز پاس کی کہ نماز کے وقت کے لیے کوئی علامت مقرر کریں جس سے نماز کے وقت کا علم ہوجایا کرے تو کچھ نے آگ جلانے اور کچھ نے ناقوس بجانے کا مشورہ دیا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:606) اس سے زیادہ وضاحت ایک اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے ناقوس بجانے کی تجویز دی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اسے تو عیسائی لوگ استعمال کرتے ہیں۔‘‘ پھر بگل پھونکنے کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا:’’یہ تو یہود کی علامت ہے۔‘‘لوگوں نے کہا:کسی بلندجگہ پر آگ کا الاؤروشن کردیا جائے تو آپ نے فرمایا:’’یہ تو مجوسیوں کا شعار ہے۔‘‘(فتح الباري:105/2-106) ایک روایت میں نماز کے وقت جھنڈا بلند کرنے کا بھی ذکر ہے۔
(2) رسول اللہ ﷺ اس سلسلے میں کافی پریشان رہتے تھے اور آپ کی پریشانی دیکھ کر حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ بھی بہت فکر مند ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اذان کے متعلق خواب دیکھنے کی سعادت نصیب فرمادی۔ چونکہ وہ بیمار تھے، اس لیے اذان دینے کےلیے حضرت بلال ؓ کا نام تجویز ہوا کہ عبداللہ بن زید ؓ انھیں کلمات اذان کی تلقین کریں اور بلال بآواز بلند اس کا اعلان کریں۔ (سنن أبي داود، الأذان، حدیث:498)