تشریح:
(1) اس حدیث کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ بندہ عین اللہ بن جاتا ہے، نعوذ باللہ جس طرح حلولیہ یا اتحادیہ کہتے ہیں بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ میرا بندہ جب میری عبادت میں غرق ہو جاتا ہے اور محبوبیت کے مرتبے پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے تمام ظاہری اور باطنی حواس شریعت کے تابع ہو جاتے ہیں۔ وہ ہاتھ، پاؤں، کان اور آنکھ سے صرف وہی کام لیتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی مرضی ہوتی ہے۔ اس سے کوئی فعل بھی خلاف شریعت سرزد نہیں ہوتا ہے۔ بہرحال مذکورہ کمالات فرائض اور نوافل کی ادائیگی اور ان کی برکات سے حاصل ہوتے ہیں۔
(2) اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ فرائض کی ادائیگی کے بعد نوافل سے اللہ تعالیٰ کا قرب وہی انسان حاصل کر سکتا ہے جو انتہائی متواضع اور منکسر المزاج ہو، متکبر آدمی یہ منصب نہیں حاصل کر سکتا، نیز اس حدیث میں اولیاء اللہ کی دشمنی اور عداوت سے منع کیا گیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ان سے محبت کی جائے۔ اور تمام اولیاء سے وہی انسان محبت کرتا ہے جس میں تواضع اور انکسار ہو کیونکہ کچھ اولیاء غبار آلود اور پراگندہ بال بھی ہوتے ہیں، ایسی حالت میں ان سے محبت کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع بیان کرتے ہیں کہ آپ بیمار کی عیادت فرماتے، جنازے کے ساتھ جاتے، غلام کی دعوت قبول کرتے اور گدھے پر سوار ہو جایا کرتے تھے۔ بنو قریظہ اور بنو نضیر سے لڑائی کے دن آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور جنگ خیبر کے موقع پر بھی آپ ایک گدھے پر سوار تھے جس کی لگام کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی رسی کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے کھجور کے پتوں کی زین تھی۔ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4178)