تشریح:
1۔ حق شفعہ کو باطل کرنے کے لیے حیلہ سازوں کی دوسری صورت کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ اس صورت میں ابطال حق شفعہ کے لیے شرط یہ ہےکہ معاوضے کو مشروط نہ کیا جائے۔ اگر ایسا کیا گیا تو شفعہ کرنے والا اس کی قیمت ادا کر کے اس جائیداد کو حاصل کر سکتا ہے اس صورت میں حق شفعہ اس لیے ساقط ہو جاتا ہےکہ ہبہ معاوضہ نہیں ہے اس لیے یہ وراثت کے مشابہ ہے اور وراثت میں حق شفعہ نہیں ہوتا۔
2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس امر کی وضاحت کرنا ہے کہ جو حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے لیے ثابت کیا اسے کسی قسم کے حیلے یا دوسرے طریقے سے ساقط نہیں کیا جا سکتا۔ (فتح الباري: 345/12) چونکہ اس حیلے کے ذریعے سے حق شفعہ کو ختم کرنا مقصود ہے نیز اس میں شفعہ کرنے والے کے نقصان کا اندیشہ ہے اس لیے ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے البتہ حیلہ ساز کہتے ہیں کہ شفعہ خریدوفروخت میں ہوتا ہے ہبہ کے مال میں شفعےکی گنجائش نہیں ہوتی لیکن ان حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی خاص فرد کو ہبہ کرنا بھی خرید وفروخت کے حکم میں ہے۔ اس اعتبار سے بھی شفعہ کرنے والے کا حق قائم رہنا چاہیے۔ اس قسم کا حیلہ کرنا ناجائز ہے کیونکہ مالک اس میں دوسرے کی حق تلفی کا ارادہ کیے ہوتا ہے۔
3۔مذکورہ صورت درحقیقت خرید وفروخت ہی ہےصرف اس پر ہے کا لیبل لگا دیا گیا ہے ہمیں چاہیے کہ اس قسم کا ہبہ لینے اور دینے سے بچیں جس سے کسی دوسرے کو نقصان مقصود ہو۔ بہر حال ایسے ناجائز حیلے کرنا مومن کی شان کے خلاف ہیں۔ واللہ المستعان۔