تشریح:
1۔مکلف انسان پر جو عبادات واعمال فرض عین ہے، اس کے متعلق اسے ضرور پوچھنا چاہیے اور اس سے زائد سوالات کرنے کے متعلق لوگوں کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ وہ ا پنے اندر بصیرت اور سمجھ بوجھ رکھتا ہے تو ایسے انسان کو سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اسے چاہیے کہ معلومات میں اضافے کے لیے سوال کرے تاکہ اس کی علمی بصیرت میں اضافہ ہو۔ دوسرا وہ شخص جس میں فہم وبصیرت کی استعداد نہیں ہے، اسے چاہیے کہ خوامخواہ سوالات کے چکر میں نہ پڑے بلکہ اپنے اوقات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارے۔ 2۔واضح رہے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اگر تمھیں علم نہ ہوتو اہل علم سے سوال کرو۔‘‘ (النحل 16/43) یہ آیت مذکورہ حدیث کے منافی نہیں کیونکہ مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک حکم ثابت ہی نہیں تو اس کے متعلق سوال کرنا منع ہے اور آیت کریمہ میں ثابت شدہ حکم کے متعلق سوال کرنے کا جواز ہے کہ اس کی وضاحت طلب کی جا سکتی ہے یا اس کی نوعیت کیاہے؟ وہ واجب ہے یا یہ کہ مستحب وغیرہ معلوم کیا جا سکتا ہے لیکن غیر ثابت شدہ حکم کی حلت وحرمت کے بارے میں سوال کرنا حدیث کی رو سے منع ہے۔ واللہ أعلم۔