تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس امر کو بیان کرنا ہے کہ بعض اوقات رحمت کا اطلاق مخلوق پر ہوتا ہے اور یہ اس رحمت کا نتیجہ ہوتا ہے جو رحمت صفت باری تعالیٰ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن عباد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جواب دیتے ہوئے فرمایا تھا۔"یہ اللہ تعالیٰ کی وہ رحمت ہے جسے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے انھی بندوں پر رحم کرتا ہے جو رحم دل ہوتے ہیں۔"(صحیح البخاری:التوحید حدیث :7377)اگرچہ مذکورالفاظ پیش کردہ حدیث میں نہیں تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حسب عادت اس حدیث کی طرف مذکورہ حدیث سے اشارہ کیا ہے۔ بلا شبہ رحمت الٰہی مخلوق بھی ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفت رحمت کا نتیجہ ہوتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔"وہی تو ہے جس نے اپنی رحمت(بارش)سے پہلے ہواؤں کو خوشخبری دینے والی بنا کر بھیجا۔"(الفرقان 25۔48)نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔"اللہ تعالیٰ نے ایک سورحمت پیدا کی ہے صرف ایک رحمت کو اپنی مخلوق میں رکھا باقی ننانوے (99)رحمتیں اپنے پاس محفوظ رکھی ہیں۔"(صحیح مسلم التوبہ حدیث: 6973(2752)2۔حدیث میں جنت کو بھی رحمت سے تعبیر کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے وہ جنت اہل ایمان سے بہت قریب ہے۔ جنت اور ان کے درمیان صرف موت حائل ہے۔ جونہی ان کی ارواح اجسام سے پرواز کریں گی ان کا مقام اور ٹھکانا جنت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ تمام اہل ایمان کو جنت الفردوس اور جنت عدن نصیب کرے آمین رب العالمین۔