Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The obligation of Zakat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ ابوسفیان ؓنے مجھ سے بیان کیا ‘ انہوں نے نبی کریم ﷺسے متعلق (قیصر روم سے اپنی) گفتگو نقل کی کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں وہ نماز ‘ زکوٰۃ ‘ صلہ رحمی ‘ ناطہٰ جوڑنے اور حرام کاری سے بچنے کا حکم دیتے ہیں۔
1397.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا:آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں اگر وہ بجالاؤں تو جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا:’’اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، فرض نمازیں اور فرض زکاۃ اداکرو اور رمضان کے روزے رکھو۔‘‘ دیہاتی بولا:مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اس سے زیادہ نہیں کروگا۔ جب وہ چلا گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔‘‘ مسدد نے یحییٰ قطان سے اور وہ ابو حیان (یحییٰ بن سعید ) سے بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابو زرعہ نے خبر دی وہ نبی ﷺ سے یہ روایت بیان کرتے ہیں۔
تشریح:
(1) یہ حدیث واضح طور پر فرضیت زکاۃ پر دلالت کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو زندگی ہی میں جنتی قرار دیا ہے۔ شاید رسول اللہ ﷺ کو اس کے متعلق بذریعہ وحی مطلع کر دیا گیا تھا یا اس میں کچھ عبارت محذوف ہے کہ اگر مامورات کو بجا لانے میں پابندی کرتا رہا تو ضرور جنت میں جائے گا۔ اس کی تائید ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اگر ان کاموں کو پابندی سے ادا کرتا رہا تو ضرور جنت میں داخل ہو گا۔‘‘(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:106(13)) (2) علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے نوافل کو چھوڑ دینے کا جواز معلوم ہوتا ہے لیکن جو شخص ہمیشہ سنن و نوافل کو چھوڑنے کا عادی ہو گا اس کے دین میں ضرور نقص ہو گا۔ اگر سستی یا بے رغبتی کی وجہ سے انہیں چھوڑتا ہے تو فسق کی علامت ہے، اس لیے کہ ترک سنن کے متعلق وعید آئی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص میری سنت سے روگردانی کرتا ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘(صحیح البخاري، النکاح، حدیث:5063) (3) صدر اول میں صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام سنتوں پر فرضوں کی طرح پابندی کرتے تھے اور ثواب حاصل کرنے کے لیے وہ لوگ فرائض اور سنن میں فرق نہیں کرتے تھے۔ (فتح الباري:336/3) (4) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں ابو زرعہ کے حوالے سے ایک سند بیان کی ہے۔ یہ مرسل روایت ہے، کیونکہ ابو زرعہ تابعی ہیں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے براہ راست اس روایت کو نہیں سنا، اس سے پہلے جو وہیب کی روایت ہے وہ موصول ہے، تاہم وہیب کی سند میں یحییٰ بن سعید ابو زرعہ سے عن کے ساتھ بیان کرتے ہیں جبکہ دوسری سند میں أخبرني کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ اس سے عدم سماع کا احتمال رفع کرنا مقصود ہے۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1361
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1397
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1397
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1397
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
تمہید باب
زکاۃ فرض ہے اور اس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ منکر زکاۃ شخص کے خلاف جہاد کرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی فرضیت بیان کرنے کے لیے حسب عادت قرآنی آیت کا حوالہ دیا ہے جس میں زکاۃ ادا کرنے کا حکم ہے اور حکم وجوب کے لیے ہوتا ہے، پھر آپ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے جو کتاب بدء الوحی میں تفصیل سے گزر چکی ہے۔ اس حصے سے فرضیت زکاۃ کی طرف اشارہ کیا ہے، نیز اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ فرضیت زکاۃ کا حکم مکہ مکرمہ میں نازل ہوا تھا کیونکہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے مذکورہ الفاظ انہوں نے شاہِ روم کے دربار میں کہے تھے اور اس وقت وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے، نیز اس واقعہ کا تعلق بھی مکی دور سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ مکرمہ میں فرض ہو چکی تھی اگرچہ اس کی تفصیلات اور حدود و مصارف مدینہ طیبہ میں نازل ہوئے ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے۔والله أعلم
اور اللہ عزوجل نے فرمایا کہ نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ ابوسفیان ؓنے مجھ سے بیان کیا ‘ انہوں نے نبی کریم ﷺسے متعلق (قیصر روم سے اپنی) گفتگو نقل کی کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں وہ نماز ‘ زکوٰۃ ‘ صلہ رحمی ‘ ناطہٰ جوڑنے اور حرام کاری سے بچنے کا حکم دیتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نبی ﷺ کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا:آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں اگر وہ بجالاؤں تو جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا:’’اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، فرض نمازیں اور فرض زکاۃ اداکرو اور رمضان کے روزے رکھو۔‘‘ دیہاتی بولا:مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اس سے زیادہ نہیں کروگا۔ جب وہ چلا گیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔‘‘ مسدد نے یحییٰ قطان سے اور وہ ابو حیان (یحییٰ بن سعید ) سے بیان کرتے ہیں کہ مجھے ابو زرعہ نے خبر دی وہ نبی ﷺ سے یہ روایت بیان کرتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ حدیث واضح طور پر فرضیت زکاۃ پر دلالت کرتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کو زندگی ہی میں جنتی قرار دیا ہے۔ شاید رسول اللہ ﷺ کو اس کے متعلق بذریعہ وحی مطلع کر دیا گیا تھا یا اس میں کچھ عبارت محذوف ہے کہ اگر مامورات کو بجا لانے میں پابندی کرتا رہا تو ضرور جنت میں جائے گا۔ اس کی تائید ایک دوسری حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اگر ان کاموں کو پابندی سے ادا کرتا رہا تو ضرور جنت میں داخل ہو گا۔‘‘(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث:106(13)) (2) علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے نوافل کو چھوڑ دینے کا جواز معلوم ہوتا ہے لیکن جو شخص ہمیشہ سنن و نوافل کو چھوڑنے کا عادی ہو گا اس کے دین میں ضرور نقص ہو گا۔ اگر سستی یا بے رغبتی کی وجہ سے انہیں چھوڑتا ہے تو فسق کی علامت ہے، اس لیے کہ ترک سنن کے متعلق وعید آئی ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص میری سنت سے روگردانی کرتا ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘(صحیح البخاري، النکاح، حدیث:5063) (3) صدر اول میں صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام سنتوں پر فرضوں کی طرح پابندی کرتے تھے اور ثواب حاصل کرنے کے لیے وہ لوگ فرائض اور سنن میں فرق نہیں کرتے تھے۔ (فتح الباري:336/3) (4) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں ابو زرعہ کے حوالے سے ایک سند بیان کی ہے۔ یہ مرسل روایت ہے، کیونکہ ابو زرعہ تابعی ہیں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے براہ راست اس روایت کو نہیں سنا، اس سے پہلے جو وہیب کی روایت ہے وہ موصول ہے، تاہم وہیب کی سند میں یحییٰ بن سعید ابو زرعہ سے عن کے ساتھ بیان کرتے ہیں جبکہ دوسری سند میں أخبرني کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ اس سے عدم سماع کا احتمال رفع کرنا مقصود ہے۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور نماز قائم کرواور زکاۃ ادا کرو۔ "
حضرت عباس ؓ نے فرمایا: مجھ سے حضرت ابو سفیان ؓ نے نبی ﷺ کی حدیث بیان کی اور کہا: آپ ہمیں نماز پڑھنے، زکاۃدینے، صلہ رحمی کرنے اور پاکدامنی اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ان سے یحییٰ بن سعید بن حیان نے‘ ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ ایک دیہاتی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں ہمیشگی کروں تو جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر‘ اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرا‘ فرض نماز قائم کر‘ فرض زکوٰة دے اور رمضان کے روزے رکھ۔ دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریم ﷺ ؓ نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہوتو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔ ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن سعید قطان نے‘ ان سے ابوحیان نے‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوزرعہ نے نبی کریم ﷺ سے یہی حدیث روایت کی۔
حدیث حاشیہ:
مگر یحیٰی بن سعید قطان کی یہ روایت مرسل ہے۔ کیونکہ ابوزرعہ تابعی ہیں۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے نہیں سنا اور وہیب کی روایت جو اوپر گزری وہ موصول ہے اور وہیب ثقہ ہیں۔ ان کی زیارت مقبول ہے۔ اس لیے حدیث میں کوئی علت نہیں (وحیدی) اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: قَالَ الْقُرْطُبِيُّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَكَذَا حَدِيثُ طَلْحَةَ فِي قِصَّةِ الْأَعْرَابِيِّ وَغَيْرِهِمَا دَلَالَةٌ عَلَى جَوَازِ تَرْكِ التَّطَوُّعَاتِ لَكِنْ مَنْ دَاوَمَ عَلَى تَرْكِ السُّنَنِ كَانَ نَقْصًا فِي دِينِهِ فَإِنْ كَانَ تَرْكُهَا تَهَاوُنًا بِهَا وَرَغْبَةً عَنْهَا كَانَ ذَلِكَ فِسْقًا يَعْنِي لِوُرُودِ الْوَعِيدِ عَلَيْهِ حَيْثُ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي وَقَدْ كَانَ صَدْرُ الصَّحَابَةِ وَمَنْ تَبِعَهُمْ يُوَاظِبُونَ عَلَى السُّنَنِ مُوَاظَبَتَهُمْ عَلَى الْفَرَائِضِ وَلَا يُفَرِّقُونَ بَيْنَهُمَا فِي اغْتِنَامِ ثَوَابِهِمَا۔(فتح الباري)یعنی قرطبی نے کہا کہ اس حدیث میں اور نیز حدیث طلحہ میں جس میں ایک دیہاتی کا ذکر ہے‘ اس پر دلیل ہے کہ نفلیات کا ترک کردینا بھی جائز ہے مگر جو شخص سنتوں کے چھوڑنے پر ہمیشگی کرے گا وہ اس کے دین میں نقص ہوگا اور اگر وہ بے رغبتی اور سستی سے ترک کررہا ہے تو یہ فسق ہوگا۔ اس لیے کہ ترک سنن کے متعلق وعید آئی ہے جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو میری سنتوں سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اور صدر اول میں صحابہ کرام اور تابعین عظام سنتوں پر فرضوں ہی کی طرح ہمیشگی کیا کرتے تھے اور ثواب حاصل کرنے کے خیال میں وہ لوگ فرضوں اور سنتوں میں فرق نہیں کرتے تھے۔ حدیث بالا میں حج کا ذکر نہیں ہے‘ اس پر حافظ فرماتے ہیں۔ لم یذکر الحج لأنه کان حینئذ حاجا ولعله ذکرہ له فاختصرہ۔یعنی حج کا ذکر نہیں فرمایا اس لیے کہ وہ اس وقت حاجی تھا یا آپ نے ذکر فرمایا مگر راوی نے بطور اختصار اس کا ذکر چھوڑ دیا۔ بعض محترم حنفی حضرات نے اہلحدیث پر الزام لگایا ہے کہ یہ لوگ سنتوں کا اہتمام نہیں کرتے‘ یہ الزام سراسر غلط ہے۔ الحمدللہ اہلحدیث کا بنیادی اصول توحید وسنت پر کاربند ہونا ہے۔ سنت کی محبت اہلحدیث کا شیوہ ہے، لہٰذا یہ الزام بالکل بے حقیقت ہے۔ ہاں معاندین اہلحدیث کے بارے میں اگر کہا جائے کہ ان کے ہاں اقوال ائمہ اکثر سنتوں پر مقدم سمجھے جاتے ہیں تو یہ ایک حد تک درست ہے۔ جس کی تفصیل کے لیے اعلام الموقعین از علامہ ابن قیم کا مطالعہ مفید ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): A Bedouin came to the Prophet (ﷺ) and said, "Tell me of such a deed as will make me enter Paradise, if I do it." The Prophet (ﷺ) said, "Worship Allah, and worship none along with Him, offer the (five) prescribed compulsory prayers perfectly, pay the compulsory Zakat, and fast the month of Ramadan." The Bedouin said, "By Him, in Whose Hands my life is, I will not do more than this." When he (the Bedouin) left, the Prophet (ﷺ) said, "Whoever likes to see a man of Paradise, then he may look at this man." ________