باب : جو شخص رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت کرکے رکھے اس کا ثواب
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: Whoever observed fast in Ramadan out of sincere Faith with honest intention)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت عائشہ ؓ نے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ لوگوں کو قیامت میں ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا۔
1901.
ضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جس شخص نے شب قدر میں ایمان ویقین کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جائیں گے اسی طرح جس نے رمضان کا روزہ ایمان ویقین کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے رکھا اس کے بھی پہلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں تین الفاظ ذکر فرمائے ہیں: ایمان، احتساب اور نیت، اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں اللہ سے اچھا بدلہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا میں ایمان و یقین کے ساتھ نیک عمل کیا جائے، نیز نیت بھی حصول ثواب کی ہو۔ اگر ایمان و یقین کے ساتھ کھانے پینے سے پرہیز کیا لیکن مقصد حصول ثواب نہ تھا بلکہ کسی ڈاکٹر وغیرہ کے کہنے پر پرہیز کیا تو اس کے لیے قیامت کے دن اچھے بدلے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ دراصل اعمال میں نیت کا کردار ہوتا ہے، اگر نیت میں اخلاص ہوا تو اللہ کے ہاں اجروثواب کی امید کی جا سکتی ہے۔ کافر دوزخ میں ہمیشہ اس لیے رہے گا کہ اس کی نیت یہ تھی کہ اگر وہ زندہ رہا تو کفر کرتا رہے گا، اس نیت بد کی وجہ سے اسے ہمیشہ جہنم میں رکھا جائے گا۔ (2) احتساب کے متعلق علامہ خطابی نے لکھا ہے کہ اس سے مراد حصول ثواب کی نیت ہے، یعنی وہ رمضان کا روزہ اس ارادے سے رکھے کہ اسے ثواب حاصل ہو گا۔ اسے بوجھ خیال نہ کرے اور نہ ان کے دنوں کی لمبائی کا خیال ہی ذہن میں لائے بلکہ خوش دلی سے اس فریضے کو ادا کرے۔ (فتح الباري:149/4) (3) واضح رہے کہ اس حدیث میں "ما" ہے جس سے مراد گناہ ہیں وہ جو بھی ہوں، خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ۔ حدیث میں وارد الفاظ کا بھی یہی تقاضا ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1847
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1901
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1901
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1901
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک لشکر بیت اللہ پر حملہ آور ہونے کے لیے روانہ ہو گا۔ جب وہ بیداء میں پہنچیں گے تو انہیں زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔" حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ راستے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو مسافر کی حیثیت سے سفر کر رہے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: "تمام لوگوں کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، پھر قیامت کے دن ان کی نیتوں کے مطابق انہیں اٹھایا جائے گا۔" (صحیح البخاری،البیوع،حدیث:2118) امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے اس حصے سے یہ ثابت کیا ہے کہ اعمال میں نیت اصل ہے کیونکہ قیامت کے دن لوگ نیت کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔ اگر وہ مخلص ہوں گے تو ان سے کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا بصورت دیگر انہیں وہاں دھر لیا جائے گا۔
اور حضرت عائشہ ؓ نے نبی کریم ﷺسے نقل کیا کہ لوگوں کو قیامت میں ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا۔
حدیث ترجمہ:
ضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’جس شخص نے شب قدر میں ایمان ویقین کے ساتھ ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جائیں گے اسی طرح جس نے رمضان کا روزہ ایمان ویقین کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے رکھا اس کے بھی پہلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں تین الفاظ ذکر فرمائے ہیں: ایمان، احتساب اور نیت، اس کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں اللہ سے اچھا بدلہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا میں ایمان و یقین کے ساتھ نیک عمل کیا جائے، نیز نیت بھی حصول ثواب کی ہو۔ اگر ایمان و یقین کے ساتھ کھانے پینے سے پرہیز کیا لیکن مقصد حصول ثواب نہ تھا بلکہ کسی ڈاکٹر وغیرہ کے کہنے پر پرہیز کیا تو اس کے لیے قیامت کے دن اچھے بدلے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ دراصل اعمال میں نیت کا کردار ہوتا ہے، اگر نیت میں اخلاص ہوا تو اللہ کے ہاں اجروثواب کی امید کی جا سکتی ہے۔ کافر دوزخ میں ہمیشہ اس لیے رہے گا کہ اس کی نیت یہ تھی کہ اگر وہ زندہ رہا تو کفر کرتا رہے گا، اس نیت بد کی وجہ سے اسے ہمیشہ جہنم میں رکھا جائے گا۔ (2) احتساب کے متعلق علامہ خطابی نے لکھا ہے کہ اس سے مراد حصول ثواب کی نیت ہے، یعنی وہ رمضان کا روزہ اس ارادے سے رکھے کہ اسے ثواب حاصل ہو گا۔ اسے بوجھ خیال نہ کرے اور نہ ان کے دنوں کی لمبائی کا خیال ہی ذہن میں لائے بلکہ خوش دلی سے اس فریضے کو ادا کرے۔ (فتح الباري:149/4) (3) واضح رہے کہ اس حدیث میں "ما" ہے جس سے مراد گناہ ہیں وہ جو بھی ہوں، خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ۔ حدیث میں وارد الفاظ کا بھی یہی تقاضا ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت عائشہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: " لوگ اپنی نیتوں کے مطابق قبروں سے اٹھائے جائیں گے۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
حدیث حاشیہ:
ہر عمل کے لیے نیت کا درست ہونا ضروری ہے، روزہ بھی بہترین عمل ہے بشرطیکہ خلوص دل کے ساتھ محض رضائے الٰہی کی نیت سے رکھا جائے اور حکم الٰہی پر یقین ہونا بھی شرط ہے کہ محض ادائیگی رسم نہ ہو، پھر نہ ثواب ملے گا جو یہاں مذکور ہے۔ اس حدیث میں من صام الخ کے ذیل میں استاذ الکل حضرت شاہ ولی اللہ محدث مرحوم فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ رمضان کے روزے رکھنے میں قوت ملکی کے غالب ہونے اور قوت بہیمی کے مغلوب ہونے کے لیے یہ مقدار کافی ہے کہ اس کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever established prayers on the night of Qadr out of sincere faith and hoping for a reward from Allah, then all his previous sins will be forgiven; and whoever fasts in the month of Ramadan out of sincere faith, and hoping for a reward from Allah, then all his previous sins will be forgiven."