باب : اگر بھول چوک کر کسی کی زبان سے عتاق ( آزادی ) یا طلاق یا اور کوئی ایسی ہی چیز نکل جائے اور آزادی صرف خدا کی رضا مندی کے لیے کی جاتی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Manumission of Slaves
(Chapter: Manumission and divorce by mistake or forgetfulness)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا ” ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملتا ہے “ اور بھولنے والے اور غلطی سے کوئی کام کربیٹھنے والے کی کوئی نیت نہیں ہوتی۔
2529.
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اعمال کا اعتبار نیت کے لحاظ سے ہے۔ جس کی ہجرت (نیت کے اعتبار سے) اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہے تو اس کی ہجرت(ثواب کے اعتبارسے) اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہی ہوگی۔ اور جس کی ہجرت دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہے تواس کی ہجرت اسی کام کے لیے ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اعمال کی صحت نیت پر مبنی ہے۔ اگر نیت نہیں تو عمل بھی صحیح نہیں ہو گا۔ اسی طرح دوسرے اعمال نماز، روزہ، زکاۃ اور حج وغیرہ نیت کے بغیر صحیح نہیں، چنانچہ نیت کے بغیر اگر کوئی شخص بے ساختہ زبان سے لفظ طلاق یا عتاق کہہ دیتا ہے تو مذکورہ اعمال صحیح نہیں، یعنی بیوی کو طلاق ہو گی نہ غلام آزاد ہو گا۔ (2) اس حدیث سے یہ مراد نہیں کہ نیت کے بغیر اعمال کا وجود ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ شریعت میں اعمال کے احکام کی صحت نیت پر موقوف ہے۔ کسی چیز کے صحیح یا غیر صحیح ہونے میں نیت ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، تاہم جنایات، مثلاً: قتل، چوری وغیرہ میں نیت کا عمل دخل نہیں ہے بلکہ اگر کوئی جرم کا مرتکب ہو گا تو اسے سزا ملے گی۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2442
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2529
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2529
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2529
تمہید کتاب
لغوی طور پر لفظ عتق مصدر ہے جس کے معنی آزاد ہونے اور قوت حاصل کرنے کے ہیں۔ غلام کو آزادی کے بعد شرعی قوت حاصل ہو جاتی ہے جو اس کی ماتحتی اور زیردستی ختم کر دینے کی باعث ہے۔ عتق کی اصطلاحی تعریف یہ ہے کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی آدمی سے غلامی کو ختم کر دینا۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا تو اللہ تعالیٰ اس غلام کے ہر عضو کے بدلے اس کے ہر عضو کو جہنم کی آگ سے آزاد کر دے گا حتیٰ کہ اس کی شرمگاہ کو غلام کی شرمگاہ کے بدلے آزاد کر دیا جائے گا۔" (صحیح البخاری،کفارات الایمان،حدیث:6715،وصحیح مسلم،العتق،حدیث:3797(1509)) یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تریسٹھ (63)، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سڑسٹھ (67)، حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ستر (70)، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دوران محاصرہ میں بیس (20)، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے سو (100)، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہزار (1000)، ذو کلاع حمیری رضی اللہ عنہ نے ایک دن میں آٹھ ہزار (8000) اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے تیس ہزار (30000) غلام آزاد کیے۔ (سبل السلام)حضرت سفینہ ابو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھے آزاد کرتے وقت یہ شرط لگائی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک آپ کی خدمت کرتا رہوں گا۔ (مسند احمد:5/221)اس قدر فضیلت کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ اب غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے اور عملی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہا۔ علمی اعتبار سے یہ امانت اسلاف نے ہمارے حوالے کی ہے۔ ہم بھی اسی حوالے سے اس امانت کو آگے منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ غلام، اسیران جنگ کی ایک شاخ ہے۔ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق کفار سے جنگ کے دوران میں جو لوگ گرفتار ہوں ان کے متعلق حکم ہے کہ ان پر احسان کرو یا ان سے فدیے کا معاملہ کر لو۔ احسان میں چار چیزیں شامل ہیں: ٭ دوران قید میں ان سے اچھا برتاؤ کیا جائے۔ ٭ قتل یا دائمی قید کے بجائے انہیں غلام بنا کر مسلمان افراد کے حوالے کر دیا جائے۔ ٭ ان پر ٹیکس لگا کر انہیں ذمی بنا لیا جائے۔ ٭ انہیں بلا معاوضہ رہا کر دیا جائے۔ اسی طرح فدیہ کا معاملہ کرنے کی تین صورتیں ہیں: ٭ مالی معاوضہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے۔ ٭ قتل یا دائمی قید کے بجائے انہیں غلام بنا کر افراد مسلمین کے حوالے کر دیا جائے۔ ٭ اپنے ان آدمیوں سے جو دشمن کی قید میں ہوں تبادلہ کر لیا جائے۔جنگی قیدیوں پر احسان کی دوسری صورت یہ ہے کہ انہیں غلام بنا کر افراد کی ملکیت میں دے دیا جائے اور ان کے مالکان کو ہدایت کی جائے کہ وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ قرآن کریم کی صراحت کے مطابق لونڈیوں سے "فائدہ اٹھانے" کی بھی اجازت ہے۔ ہمارے ہاں کچھ "روشن خیال" لوگ مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر لونڈیوں سے "فائدہ اٹھانے" کے معاملے میں غلط فہمی کا شکار ہیں اور آئے دن اس شبہ کی آڑ میں اسلام کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ ان کے ازالے کے لیے مولانا مودودی مرحوم کے الفاظ کو مستعار لیتے ہوئے چند مسائل ذکر کیے جاتے ہیں:(1) جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں، ان کو پکڑتے ہی ہر سپاہی ان کے ساتھ مباشرت کر لینے کا مجاز نہیں ہے بلکہ اسلامی قانون یہ ہے کہ ایسی عورتیں حکومت کے حوالے کر دی جائیں۔ حکومت کو اختیار ہے چاہے ان کو رہا کر دے، چاہے ان سے فدیہ لے، چاہے ان کا تبادلہ ان مسلمان قیدیوں سے کر لے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے انہی سپاہیوں میں تقسیم کر دے۔ ایک سپاہی صرف اسی عورت سے تمتع کرنے (فائدہ اٹھانے) کا مجاز ہے جو حکومت کی طرف سے باقاعدہ اس کی ملک میں دی گئی ہو۔(2) جو عورت اس طرح کسی کی ملک میں دی جائے اس کے ساتھ بھی اس وقت تک مباشرت نہیں کی جا سکتی جب تک کہ اسے ایک مرتبہ ایام ماہواری نہ آ جائیں اور یہ اطمینان نہ ہو جائے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے مباشرت کرنا حرام ہے اور اگر وہ حاملہ ہو تو وضع حمل سے پہلے بھی مباشرت ناجائز ہے۔(3) جنگ میں پکڑی ہوئی عورتوں سے تمتع کے معاملے میں یہ شرط نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب ہی میں سے ہوں، ان کا مذہب خواہ کوئی ہو، بہرحال جب وہ تقسیم کر دی جائیں گی تو جن کے حصے میں وہ آئیں وہ ان سے تمتع کر سکتے ہیں۔(4) جو عورت جس شخص کے حصے میں دی گئی ہو صرف وہی اس کے ساتھ تمتع کر سکتا ہے۔ کسی دوسرے کو اسے ہاتھ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس عورت سے جو اولاد ہو گی وہ اسی شخص کی جائز اولاد سمجھی جائے گی جس کی ملک وہ عورت ہے۔ اس اولاد کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو شریعت میں صلبی اولاد کے لیے مقرر ہیں۔ صاحب اولاد ہو جانے کے بعد وہ عورت فروخت نہیں کی جا سکے گی اور مالک کے مرتے ہی وہ آپ سے آپ آزاد ہو جائے گی۔(5) جو عورت اس طرح کسی شخص کی ملک میں آئی ہو اسے اگر اس کا مالک کسی دوسرے شخص کے نکاح میں دے دے تو پھر مالک کو اس سے دوسری تمام خدمات لینے کا حق تو رہتا ہے لیکن شہوانی تعلق کا حق باقی نہیں رہتا۔(6) جس طرح شریعت نے بیویوں کی تعداد پر چار کی پابندی لگائی ہے، اس طرح لونڈیوں کی تعداد پر نہیں لگائی لیکن اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہ کرنے سے شریعت کا منشا یہ نہیں تھا کہ مال دار لوگ بے شمار لونڈیاں خرید خرید کر جمع کر لیں اور اپنے گھر کو عیاشی کا گھر بنا لیں بلکہ در حقیقت معاملے میں عدم تعین کی وجہ جنگی حالات کا عدم تعین ہے۔(7) ملکیت کے تمام دوسرے حقوق کی طرح وہ مالکانہ حقوق بھی قابل انتقال ہیں جو کسی شخص کو ازروئے قانون کسی اسیر جنگ پر حکومت نے عطا کیے ہوں۔(8) حکومت کی طرف سے حقوق ملکیت کا باقاعدہ عطا کیا جانا ویسا ہی ایک قانونی فعل ہے جیسا کہ نکاح ایک قانونی فعل ہے، لہذا کوئی معقول وجہ نہیں کہ جو شخص نکاح میں کسی قسم کی کراہت محسوس نہیں کرتا وہ خواہ مخواہ لونڈی سے تمتع میں کراہت محسوس کرے۔(9) اسیران جنگ میں سے کسی عورت کو کسی شخص کی ملکیت میں دے دینے کے بعد پھر حکومت اسے واپس لینے کی مجاز نہیں رہتی بالکل اسی طرح جیسے کسی عورت کا ولی اس کو کسی کے نکاح میں دے چکنے کے بعد پھر واپس لینے کا حق دار نہیں رہتا۔(10) اگر کوئی فوجی کمانڈر محض وقتی اور عارضی طور پر اپنے سپاہیوں کو قیدی عورتوں سے شہوانی پیاس بجھا لینے کی اجازت دے دے اور محض کچھ وقت کے لیے انہیں فوج میں تقسیم کرے تو یہ اسلامی قانون کی رو سے قطعاً ایک ناجائز فعل ہے۔ اس میں اور زنا میں کوئی فرق نہیں ہے اور زنا اسلامی قانون میں جرم ہے۔ (تفہیم القرآن،سورہ نساء،حاشیہ نمبر:44)اگرچہ دور حاضر میں غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے، تاہم آج بھی اگر کسی مقروض کا قرض ادا کر دیا جائے یا کسی ناحق مقدمے میں پھنسے ہوئے انسان کو رہائی دلائی جائے تو ایسا کرنا بھی غلام کو آزاد کرنے کے مترادف ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے متعدد مرفوع احادیث پر تقریباً بیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں غلاموں کے حقوق و آداب بیان کیے ہیں۔ دوران مطالعہ میں قارئین کرام کو بے شمار احکام و مسائل سے آگاہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن و حدیث کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر سہواً یا نسیاناً کسی کے منہ سے طلاق یا آزادی کا لفظ نکل گیا تو اس پر شرعاً کوئی حکم مرتب نہیں ہو گا اور نہ اس طرح طلاق اور آزادی ہی واقع ہو گی کیونکہ شرعی معاملات میں نیت کا ہونا ضروری ہے جبکہ بھولنے والے اور خطاکار کی کوئی نیت نہیں ہوتی۔ لیکن احناف کے نزدیک جس طرح بھی طلاق یا عتاق کا لفظ منہ سے نکل جائے وہ واقع ہو جاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف دلائل کے اعتبار سے زیادہ مضبوط اور قرین قیاس ہے۔
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا ” ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق اجر ملتا ہے “ اور بھولنے والے اور غلطی سے کوئی کام کربیٹھنے والے کی کوئی نیت نہیں ہوتی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اعمال کا اعتبار نیت کے لحاظ سے ہے۔ جس کی ہجرت (نیت کے اعتبار سے) اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہے تو اس کی ہجرت(ثواب کے اعتبارسے) اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے لیے ہی ہوگی۔ اور جس کی ہجرت دنیا کمانے یا کسی عورت سے شادی رچانے کے لیے ہے تواس کی ہجرت اسی کام کے لیے ہوگی جس کی طرف اس نے ہجرت کی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اعمال کی صحت نیت پر مبنی ہے۔ اگر نیت نہیں تو عمل بھی صحیح نہیں ہو گا۔ اسی طرح دوسرے اعمال نماز، روزہ، زکاۃ اور حج وغیرہ نیت کے بغیر صحیح نہیں، چنانچہ نیت کے بغیر اگر کوئی شخص بے ساختہ زبان سے لفظ طلاق یا عتاق کہہ دیتا ہے تو مذکورہ اعمال صحیح نہیں، یعنی بیوی کو طلاق ہو گی نہ غلام آزاد ہو گا۔ (2) اس حدیث سے یہ مراد نہیں کہ نیت کے بغیر اعمال کا وجود ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ شریعت میں اعمال کے احکام کی صحت نیت پر موقوف ہے۔ کسی چیز کے صحیح یا غیر صحیح ہونے میں نیت ایک فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے، تاہم جنایات، مثلاً: قتل، چوری وغیرہ میں نیت کا عمل دخل نہیں ہے بلکہ اگر کوئی جرم کا مرتکب ہو گا تو اسے سزا ملے گی۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
نبی اکرم ﷺ کا ا رشاد گرامی ہے: "ہر آدمی کے لیے وہ کچھ ہے جس کی وہ نیت کرے۔ "بھولنے والے اور خطا کار کی نیت نہیں ہوا کرتی۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم تیمی نے، ان سے علقمہ بن وقاص لیثی نے، کہا کہ میں نے عمر بن خطاب ؓ سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اعمال کا مدار نیت پر ہے اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق پھل ملتا ہے۔ پس جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو، وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے سمجھی جائے گی اور جس کی ہجرت دنیا کے لیے ہوگی یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے تو یہ ہجرت محض اسی کے لیے ہوگی جس کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی شرح اوپر گزرچکی ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ نکالا ہے کہ جب ہر کام کے درست ہونے کے لیے نیت شرط ہوئی تو اگر کسی شخص کی طلاق کی نیت نہ تھی لیکن بے اختیار کہنا کچھ چاہتا تھا زبان سے یہ نکل گیا انت طالق طلاق نہ پڑے گی۔ (وحیدی) مترجم کہتا ہے کہ یہ دل کی بات اور نیت کا معاملہ ہے۔ صاحب معاملہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس بارے میں خود اپنے دل سے فیصلہ کرے اور خدا کو حاضر و ناظر جان کر کرے اور پھر خود ہی اپنے بارے میں فتویٰ لے کہ وہ ایسی مطلقہ کو واپس لاسکتا ہے یا نہیں۔ جو لوگ بحالت ہوش و حواس اپنی عورتوں کو صاف طور پر طلاق دیتے ہیں، بعد میں حیلے بہانے کرکے واپس لانا چاہتے ہیں۔ ان کو جان لینا چاہئے کہ حلال ہونے کے باوجود طلاق عنداللہ نہایت ہی مبغوض ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Umar bin Al-Khattab (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The (reward of) deeds depend on intentions, and every person will get the reward according to what he intends. So, whoever migrated for Allah and His Apostle, then his migration will be for Allah and His Apostle, and whoever migrated for worldly benefits or for marrying a woman, then his migration will be for what he migrated for." (See Hadith No. 1, Vol. 1)