باب : اگر مکاتب اپنی بیع پر اس لیے راضی ہوجائے کہ اسے آزاد کر دیا جائے گا تو اس کے ساتھ جو شرائط جائز ہوسکتی ہیں ، ان کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Conditions
(Chapter: The conditions permissible in the case of a slave who has a writing for emancipation)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
2726.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت بریرہ ؓ میرے پاس آئیں جبکہ وہ مکاتبہ تھیں، عرض کیا: اُم المومنین!آپ مجھے خرید لیں کیونکہ میرے مالک مجھے فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ پھر آپ مجھے آزاد کر دیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ حضرت بریرہ ؓ نے کہا: میرے مالکان مجھے فروخت کرنے پر راضی تو ہیں لیکن وہ اپنے لیے ولا کی شرط لگاتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: پھر مجھے تیرے متعلق کوئی دلچسپی نہیں۔ چنانچہ نبی ﷺ نے یہ واقعہ خود سنایا کسی نے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’بریرہ ؓ کا کیا ماجرا ہے؟ ( حضرت عائشہ ؓ نے بتایا تو) آپ نے فرمایا: ’’اسے خرید لو اور آزاد کرو، وہ لوگ جو چاہیں شرطیں لگاتے پھریں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے اسے خرید کر آزاد کر دیا لیکن اس کے مالکان نے ولا کی شرط کا ذکر کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ولاتو اس کا حق ہے جو اس کو آزاد کرے اگرچہ مالکان سو شرطیں بھی لگادیں (ان کا کچھ اعتبار نہیں )۔‘‘
تشریح:
حضرت بریرہ ؓ نے اپنے مالکان سے مکاتبت کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ اس نے ام المومنین عائشہ ؓ سے عرض کی کہ وہ اسے خرید لیں لیکن یہ شرط رکھی کہ خریدنے کے بعد اسے آزاد کرنا ہو گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مکاتب اس شرط پر فروخت ہونے کے لیے راضی ہو جائے کہ اسے خرید کر آزاد کر دیا جائے گا تو ایسا کرنا جائز ہے۔ شرعاً اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، البتہ غلط شرائط کے ساتھ جو معاملہ کیا جائے وہ ہرگز قابل تسلیم نہ ہوں گی جیسا کہ حضرت بریرہ ؓ کے مالکان نے ایک غلط شرط لگائی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شرط کو کالعدم قرار دیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2628
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
2726
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
2726
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
2726
تمہید کتاب
لغوی طور پر شرط کے معنی علامت کے ہیں۔ شریعت کی اصطلاح میں شرط وہ ہے جس پر کسی چیز کا موجود ہونا موقوف ہو اور خود وہ چیز اس میں داخل نہ ہو، جیسے نماز کے لیے وضو شرط ہے لیکن وضو نماز میں داخل نہیں ہے، البتہ نماز کا صحیح ہونا اس پر موقوف ہے۔ رکن اور شرط میں یہی فرق ہے کہ رکن اس چیز کا حصہ ہوتا ہے جبکہ شرط مشروط کا حصہ نہیں ہوتی جیسا کہ سجدہ اور رکوع نماز کا رکن ہے۔ ان پر نماز کا وجود موقوف ہے اور یہ دونوں نماز کا حصہ ہیں۔ اس عنوان کے تحت شرائط کے مسائل و احکام بیان ہوں گے۔شرط کی اہمیت کا اس امر سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمان آپس میں جو شرائط طے کر لیں ان کا پورا کرنا ضروری ہے اور ایسی شرائط کا کوئی اعتبار نہیں جو اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو حرام اور حرام کی ہوئی چیز کو حلال کر دیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جس شرط کی بنیاد اللہ کی کتاب میں نہ ہو وہ سرے سے باطل ہے اگرچہ ایسی سو شرائط ہی کیوں نہ ہوں۔" (صحیح البخاری،الشروط،حدیث:2735) امام بخاری رحمہ اللہ نے شرائط کے احکام بیان کرنے کے لیے سینتالیس مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں بیالیس مکرر اور صرف پانچ احادیث خالص ہیں، پھر ان میں ستائیس معلق ہیں اور باقی بائیس احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے گیارہ آثار بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ ان احادیث و آثار پر امام بخاری رحمہ اللہ نے تقریباً انیس چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے شرائط کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ عنوانات پر سرسری نظر ڈالنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی فہم و فراست اور وسعت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شرائط کا تذکرہ بڑی جامعیت کے ساتھ کیا ہے، پھر ان کی حیثیت سے بھی ہمیں آگاہ فرمایا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے بیان کردہ موقف کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کو صرف اپنی معلومات میں اضافے کے لیے زیر مطالعہ نہیں لانا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی ایک بڑا مقصد ہے لیکن ایک مسلمان کو اپنی عملی زندگی سنوارنے کے لیے ان احادیث کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ ان احادیث کی وضاحت کرتے وقت فکر محدثین کو زیادہ سے زیادہ اُجاگر کریں اور امام بخاری رحمہ اللہ کے محدثانہ مزاج کے مطابق ان کی وضاحت کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت بریرہ ؓ میرے پاس آئیں جبکہ وہ مکاتبہ تھیں، عرض کیا: اُم المومنین!آپ مجھے خرید لیں کیونکہ میرے مالک مجھے فروخت کرنا چاہتے ہیں۔ پھر آپ مجھے آزاد کر دیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ٹھیک ہے۔ حضرت بریرہ ؓ نے کہا: میرے مالکان مجھے فروخت کرنے پر راضی تو ہیں لیکن وہ اپنے لیے ولا کی شرط لگاتے ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: پھر مجھے تیرے متعلق کوئی دلچسپی نہیں۔ چنانچہ نبی ﷺ نے یہ واقعہ خود سنایا کسی نے آپ کو آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’بریرہ ؓ کا کیا ماجرا ہے؟ ( حضرت عائشہ ؓ نے بتایا تو) آپ نے فرمایا: ’’اسے خرید لو اور آزاد کرو، وہ لوگ جو چاہیں شرطیں لگاتے پھریں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: میں نے اسے خرید کر آزاد کر دیا لیکن اس کے مالکان نے ولا کی شرط کا ذکر کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’ولاتو اس کا حق ہے جو اس کو آزاد کرے اگرچہ مالکان سو شرطیں بھی لگادیں (ان کا کچھ اعتبار نہیں )۔‘‘
حدیث حاشیہ:
حضرت بریرہ ؓ نے اپنے مالکان سے مکاتبت کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ اس نے ام المومنین عائشہ ؓ سے عرض کی کہ وہ اسے خرید لیں لیکن یہ شرط رکھی کہ خریدنے کے بعد اسے آزاد کرنا ہو گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مکاتب اس شرط پر فروخت ہونے کے لیے راضی ہو جائے کہ اسے خرید کر آزاد کر دیا جائے گا تو ایسا کرنا جائز ہے۔ شرعاً اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، البتہ غلط شرائط کے ساتھ جو معاملہ کیا جائے وہ ہرگز قابل تسلیم نہ ہوں گی جیسا کہ حضرت بریرہ ؓ کے مالکان نے ایک غلط شرط لگائی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس شرط کو کالعدم قرار دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن مکی نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ میں عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے بتلایا کہ بریرہ ؓ میرے یہاں آئیں، انہوں نے کتابت کا معاملہ کرلیا تھا۔ مجھ سے کہنے لگیں کہ اے ام المؤمنین! مجھے آپ خرید لیں، کیوں کہ میرے مالک مجھے بیچنے پر آمادہ ہیں، پھر آپ مجھے آزاد کردینا۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ ہاں (میں ایسا کرلوں گی) لیکن بریرہ ؓ نے پھر کہا کہ میرے مالک مجھے اسی وقت بیچیں گے جب وہ ولاءکی شرط اپنے لیے لگالیں۔ اس پر عائشہ ؓ نے فرمایا کہ پھر مجھے ضرورت نہیں ہے۔ جب نبی کریم ﷺ نے سنا، یا آپ کو معلوم ہوا (راوی کو شبہ تھا) تو آپ نے فرمایا کہ بریرہ کا کیا معاملہ ہے ؟ تم انہیں خرید کر آزاد کردو، وہ لوگ جو چاہیں شرط لگالیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ میں نے بریرہ کو خرید کر آزاد کردیا اور اس کے مالک نے ولاءکی شرط اپنے لیے محفوظ رکھی۔ آنحضرت ﷺ نے یہی فرمایا کہ ولاءاسی کے ساتھ ثابت ہوتی ہے جو آزاد کرے (دوسرے) جو چاہیں شرط لگاتے رہیں۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ غلط شرطوں کے ساتھ جو معاملہ ہو وہ شرطیں ہرگز قابل تسلیم نہ ہوں گی اور معاملہ منعقد ہوجائے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aiman Al-Makki (RA): rs had stipulated that her Wala would be for them.' The Prophet (ﷺ) said,