Sahi-Bukhari:
Virtues of the Qur'an
(Chapter: The superiority of Fatiha-til-Kitab)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5007.
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا ہم ایک سفر میں تھے تو (ایک قبیلے کے نزدیک) ہم نے پڑاؤ کیا۔ وہاں ایک لونڈی آئی اور کہنے لگی کہ قبیلے کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے قبیلے کے مرد موجود نہیں ہیں کیا تم میں سے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟ ہم میں سے ایک شخص اس کے ساتھ جانے والا ہے؟ ہم میں سے ایک شخص اس کے ساتھ جانے کے لیے کھڑا ہوا، حالانکہ ہم اسے جھاڑ پھونک والا خیال نہیں کرتے تھے، چنانچہ اس نے دم کیا تو سردار تندرست ہو گیا اور اس نے (شکرانے کے طور) تیس (30) بکریاں دینے کا حکم دیا، نیز ہمیں دودھ بھی پلایا۔ جب وہ شخص واپس آیا تو ہم نے اس سے پوچھا۔ کیا تم واقعی کوئی منتر جانتے اور تیرے پاس اچھا سا دم ہے؟ اس نے کہا: نہیں میں نے تو صرف فاتخہ پڑھ کر اس پر دم کر دیا تھا۔ ہم نے کہا: جب تک ہم نبی ﷺ سے اس کے متعلق کچھ پوچھ نہ لیں ان کے متعلق کچھ نہ کریں پھر جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا: ”اس کو کیسے معلوم ہوا کہ فاتحہ سے دم کیا جاتا ہے بہرحال بکریاں تقسیم کر لو اور میرا بھی ان میں حصہ رکھو۔“ ابو معمر نے بیان کیا ہمیں عبدالوارث نے، ان سے ہشام نے، ان سے محمد بن سیرین نے ان سے معبد بن سیرین نے، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی۔
تشریح:
1۔ دم کرنے والے خود راوی حدیث حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جیسا کہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث:5736) 2۔ اس حدیث سے سورہ فاتحہ کی فضیلت اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی اور صفات علیا ہیں۔ یہ نہ صرف مضامین کے اعتبار سے بلند پایہ ہیں بلکہ دم جھاڑ کے بھی کام آتے ہیں۔ بعض روایات میں اس کا نام سورہ رقیہ بھی آیا ہے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث:5736) 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دم جھاڑ کرنا جائز ہے اور اس پر اجرت بھی لی جا سکتی ہے لیکن اسے پیشہ بنانا اور ذریعہ معاش قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا ہم ایک سفر میں تھے تو (ایک قبیلے کے نزدیک) ہم نے پڑاؤ کیا۔ وہاں ایک لونڈی آئی اور کہنے لگی کہ قبیلے کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے قبیلے کے مرد موجود نہیں ہیں کیا تم میں سے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟ ہم میں سے ایک شخص اس کے ساتھ جانے والا ہے؟ ہم میں سے ایک شخص اس کے ساتھ جانے کے لیے کھڑا ہوا، حالانکہ ہم اسے جھاڑ پھونک والا خیال نہیں کرتے تھے، چنانچہ اس نے دم کیا تو سردار تندرست ہو گیا اور اس نے (شکرانے کے طور) تیس (30) بکریاں دینے کا حکم دیا، نیز ہمیں دودھ بھی پلایا۔ جب وہ شخص واپس آیا تو ہم نے اس سے پوچھا۔ کیا تم واقعی کوئی منتر جانتے اور تیرے پاس اچھا سا دم ہے؟ اس نے کہا: نہیں میں نے تو صرف فاتخہ پڑھ کر اس پر دم کر دیا تھا۔ ہم نے کہا: جب تک ہم نبی ﷺ سے اس کے متعلق کچھ پوچھ نہ لیں ان کے متعلق کچھ نہ کریں پھر جب ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو نبی ﷺ سے اس کا ذکر کیا، آپ نے فرمایا: ”اس کو کیسے معلوم ہوا کہ فاتحہ سے دم کیا جاتا ہے بہرحال بکریاں تقسیم کر لو اور میرا بھی ان میں حصہ رکھو۔“ ابو معمر نے بیان کیا ہمیں عبدالوارث نے، ان سے ہشام نے، ان سے محمد بن سیرین نے ان سے معبد بن سیرین نے، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ دم کرنے والے خود راوی حدیث حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں جیسا کہ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث:5736) 2۔ اس حدیث سے سورہ فاتحہ کی فضیلت اس طرح ثابت ہوتی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی اور صفات علیا ہیں۔ یہ نہ صرف مضامین کے اعتبار سے بلند پایہ ہیں بلکہ دم جھاڑ کے بھی کام آتے ہیں۔ بعض روایات میں اس کا نام سورہ رقیہ بھی آیا ہے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث:5736) 3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دم جھاڑ کرنا جائز ہے اور اس پر اجرت بھی لی جا سکتی ہے لیکن اسے پیشہ بنانا اور ذریعہ معاش قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے معبد بن سیرین نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ ہم ایک فوجی سفر میں تھے (رات میں) ہم نے ایک قبیلہ کے نزدیک پڑاؤ کیا۔ پھر ایک لونڈی آئی اور کہا کہ قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے قبیلے کے مرد موجود نہیں ہیں، کیا تم میں کوئی بچھو کا جھاڑ پھونک کر نے والا ہے؟ ایک صحابی (خود ابو سعید) اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے، ہم کو معلوم تھا کہ وہ جھاڑ پھونک نہیں جانتے لیکن انہوں نے قبیلہ کے سردار کو جھاڑا تو اسے صحت ہو گئی۔ اس نے اس کے شکرانے میں تیس بکریاں دینے کا حکم دیا اور ہمیں دودھ پلایا۔ جب وہ جھاڑ پھونک کر کے واپس آئے تو ہم نے ان سے پوچھا کیا تم واقعی کوئی منتر جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں میں نے تو صرف سورۃ فاتحہ پڑھ کراس پر دم کر دیا تھا۔ ہم نے کہا کہ اچھا جب تک ہم رسول کریم ﷺ سے اس کے متعلق نہ پوچھ لیں ان بکریوں کے بارے میں اپنی طرف سے کچھ نہ کہو۔ چنانچہ ہم نے مدینہ پہنچ کر آنحضور ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ انہوں نے کیسے جانا کہ سورۃ فاتحہ منتر بھی ہے۔ (جاؤ یہ مال حلال ہے) اسے تقسیم کر لو اور اس میں میرا بھی حصہ لگانا۔ اور معمر نے بیان کیا ہم سے عبد الوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، کہا ہم سے معبد بن سیرین نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابو سعید خدری ؓ نے یہی واقعہ بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): While we were on one of our journeys, we dismounted at a place where a slave girl came and said, "The chief of this tribe has been stung by a scorpion and our men are not present; is there anybody among you who can treat him (by reciting something)?" Then one of our men went along with her though we did not think that he knew any such treatment. But he treated the chief by reciting something, and the sick man recovered whereupon he gave him thirty sheep and gave us milk to drink (as a reward). When he returned, we asked our friend, "Did you know how to treat with the recitation of something?" He said, "No, but I treated him only with the recitation of the Mother of the Book (i.e., Al-Fatiha)." We said, "Do not say anything (about it) till we reach or ask the Prophet (ﷺ) so when we reached Medina, we mentioned that to the Prophet (ﷺ) (in order to know whether the sheep which we had taken were lawful to take or not). The Prophet (ﷺ) said, "How did he come to know that it (Al-Fatiha) could be used for treatment? Distribute your reward and assign for me one share thereof as well."