Sahi-Bukhari:
Food, Meals
(Chapter: Al-Udm (additional food taken with bread))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5430.
سیدنا قاسم بن محمد سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدنا بریرہ ؓ سے تین شرعی حکم وابستہ ہیں: پہلا یہ کہ سیدہ عائشہ ؓ نے اسے خریدنے کا ارادہ کیا تاکہ اسے آزاد کر دیں لیکن اس کے آقاؤں نے کہا کہ ولاء ہمارے لیے ہوگی۔ سیدہ عائشہ ؓ نے یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم چاہتی ہو تو ان سے یہ شرط کر لو لیکن ولاء اس کے لیے ہوگی جو اس کو آزاد کرے۔“ دوسرا یہ کہ سیدہ بریرہ ؓ کو آزاد کر دیا گیا تو اسے اختیار دیا گیا کہ اپنے شوہر کے نکاح میں رہے یا اس سے علیحدہ ہو جائے۔ تیسرا یہ کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن سیدہ عائشہ ؓ کے گھر تشریف لے گئے، جبکہ (وہاں) آگ پر ہانڈی ابل رہی تھی۔ آپ نے دوپہر کا کھانا طلب فرمایا تو روٹی اور گھر میں موجود سالن پیش کر دیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں گوشت دیکھ رہا ہوں؟“ اہل خانہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ گوشت ہے جو بریرہ ؓ پر صدقہ کیا گیا تھا اس نے وہ ہمیں ہدیہ دیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”(ٹھیک ہے) وہ اس (بریرہ) پر صدقہ تھا اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سالن کے بجائے گوشت کو پسند فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ آپ کو گوشت پسند تھا۔ دنیا اور آخرت میں گوشت تمام سالنوں کا سردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے آپ کی دعوت کی تو انہوں نے ایک بکری ذبح کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گویا تجھے معلوم ہے کہ ہمیں گوشت محبوب ہے۔‘‘ (مسند أحمد: 303/3) اور جن اسلاف سے گوشت پر دوسری اشیاء کی ترجیح منقول ہے، اس سے مراد ان کی قناعت پسندی ہے تاکہ انسان عمدہ چیزوں کا عادی نہ بن جائے۔ بہرحال گوشت ایک بہترین سالن ہے اگر کوئی اسراف و تبذیر سے بالاتر ہو کر اس کا اہتمام کرتا ہے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (فتح الباري: 688/9)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5221
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5430
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5430
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5430
تمہید کتاب
لفظ أطعمه عربی زبان میں طَعَام کی جمع ہے۔ طعام ہر قسم کے کھانے کو کہا جاتا ہے اور کبھی خاص گیہوں کو بھی طعام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لفظ طعم اگر فتحہ (زبر) کے ساتھ ہو تو اس کے معنی مزہ اور ذائقہ ہیں اور ضمہ (پیش) کے ساتھ ہو تو طعام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ طاعم کھانے اور چکھنے والے دونوں پر بولا جاتا ہے۔ اس عنوان کے تحت حلال و حرام ماکولات (کھائی جانے والی چیزیں) اور کھانوں کے احکام و آداب کو بیان کیا جائے گا۔ ہم کھانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ ہدایات جو ماکولات کے حلال و حرام ہونے سے متعلق ہیں۔ ٭ وہ تعلیمات جو کھانے کے آداب سے متعلق ہیں۔ یہ آداب حسب ذیل اقسام پر مشتمل ہیں: ٭ ان آداب کا تعلق تہذیب و سلیقہ اور وقار سے ہے۔ ٭ ان آداب میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے۔ ٭ وہ آداب اللہ تعالیٰ کے ذکروشکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٭ ان آداب کو جو بظاہر مادی عمل ہے تقرب کا ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ ماکولات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "یہ نبی اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور گندی ناپاک اشیاء کو حرام کرتے ہیں۔" (الاعراف: 7/157) بیان کردہ احادیث میں جو حرام ماکولات ہیں وہ مذکورہ آیت کی تفصیل ہیں۔ جن چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کہا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت اور گندگی ضرور ہے۔ اسی طرح جن چیزوں کو آپ نے حلال قرار دیا ہے وہ عام طور پر انسانی فطرت کے لیے پسندیدہ اور پاکیزہ ہیں، پھر وہ غذا کے اعتبار سے نفع بخش بھی ہیں۔ پیش کی گئی احادیث میں ایسے اشارات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کھانے کے جن آداب کی تلقین کی گئی ہے ان کا درجہ استحباب و استحسان کا ہے۔ اگر ان پر کسی وجہ سے عمل نہ ہو سکے تو ثواب سے محروم تو ضرور ہوں گے لیکن ان میں گناہ یا عذاب کی بات نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں کھانے کی قسمیں اور اس کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ ایک مسلمان کے لیے ان آداب کا معلوم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ایک سو بارہ (112) احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں چودہ (14) معلق اور باقی اٹھانوے (98) متصل سند سے مروی ہیں، پھر ان میں نوے (90) مکرر ہیں اور بائیس (22) احادیث خالص ہیں۔ نو (9) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ سے مروی چھ (6) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔انہوں نے ان احادیث و آثار پر انسٹھ (59) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں: ٭ کھانے کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا۔ ٭ دائیں ہاتھ سے کھانا۔ ٭ برتن میں اپنے سامنے سے کھانا۔ ٭ پیٹ بھر کر نہ کھانا۔ ٭ میدہ کی باریک چپاتی استعمال کرنا۔ ٭ ستو کھانے کا بیان۔ ٭ ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہو سکتا ہے۔ ٭ مومن ایک آنت سے کھاتا ہے۔ ٭ تکیہ لگا کر کھانا کیسا ہے؟ ٭ بازو کا گوشت نوچ کر کھانا۔ ٭ گوشت چھری سے کاٹ کر کھانا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی خوراک کا بیان۔ ٭ چاندی کے برتن میں کھانا کیسا ہے؟ ٭ ایک وقت میں دو قسم کے کھانے استعمال کرنا۔ لہسن اور دوسری بدبودار ترکاریوں کا بیان۔ ٭ کھانے کے بعد کلی کرنا۔ ٭ انگلیاں چاٹنا۔ ٭ رومال کا استعمال۔ ٭ کھانا کھانے کے بعد کون سی دعا پڑھنی چاہیے؟ ٭ خادم کو بھی ساتھ کھلانا چاہیے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں کھانے کے آداب بیان کیے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان آداب کو حرز جاں بنائے اور زندگی میں ان آداب کو اپنا معمول بنائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کی توفیق دے۔ آمین
تمہید باب
ہر وہ چیز سالن ہے جس کے ذریعے سے روٹی کو خوشگوار کر کے کھایا جائے، خواہ وہ شوربا ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، وہ خود تیار کیا جائے یا پہلے سے تیار شدہ ہو۔
سیدنا قاسم بن محمد سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ سیدنا بریرہ ؓ سے تین شرعی حکم وابستہ ہیں: پہلا یہ کہ سیدہ عائشہ ؓ نے اسے خریدنے کا ارادہ کیا تاکہ اسے آزاد کر دیں لیکن اس کے آقاؤں نے کہا کہ ولاء ہمارے لیے ہوگی۔ سیدہ عائشہ ؓ نے یہ واقعہ رسول اللہ ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم چاہتی ہو تو ان سے یہ شرط کر لو لیکن ولاء اس کے لیے ہوگی جو اس کو آزاد کرے۔“ دوسرا یہ کہ سیدہ بریرہ ؓ کو آزاد کر دیا گیا تو اسے اختیار دیا گیا کہ اپنے شوہر کے نکاح میں رہے یا اس سے علیحدہ ہو جائے۔ تیسرا یہ کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن سیدہ عائشہ ؓ کے گھر تشریف لے گئے، جبکہ (وہاں) آگ پر ہانڈی ابل رہی تھی۔ آپ نے دوپہر کا کھانا طلب فرمایا تو روٹی اور گھر میں موجود سالن پیش کر دیا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں گوشت دیکھ رہا ہوں؟“ اہل خانہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ گوشت ہے جو بریرہ ؓ پر صدقہ کیا گیا تھا اس نے وہ ہمیں ہدیہ دیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”(ٹھیک ہے) وہ اس (بریرہ) پر صدقہ تھا اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔“
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے سالن کے بجائے گوشت کو پسند فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ آپ کو گوشت پسند تھا۔ دنیا اور آخرت میں گوشت تمام سالنوں کا سردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے آپ کی دعوت کی تو انہوں نے ایک بکری ذبح کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گویا تجھے معلوم ہے کہ ہمیں گوشت محبوب ہے۔‘‘ (مسند أحمد: 303/3) اور جن اسلاف سے گوشت پر دوسری اشیاء کی ترجیح منقول ہے، اس سے مراد ان کی قناعت پسندی ہے تاکہ انسان عمدہ چیزوں کا عادی نہ بن جائے۔ بہرحال گوشت ایک بہترین سالن ہے اگر کوئی اسراف و تبذیر سے بالاتر ہو کر اس کا اہتمام کرتا ہے تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (فتح الباري: 688/9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعیدنے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے، ان سے ربیعہ نے، انہوں نے قاسم بن محمد سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ بریرہ ؓ کے ساتھ شریعت کی تین سنتیں قائم ہوئیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے انہیں (ان کے مالکوں سے) خرید کر آزاد کرنا چاہا تو ان کے مالکوں نے کہا کہ ولاء کا تعلق ہم سے ہی قائم ہوگا۔ (عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ) میں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اگر تم یہ شرط لگا بھی لو جب بھی ولاء اسی کے ساتھ قائم ہوگا جو آزاد کرے گا ۔ پھر بیان کیا کہ بریرہ آزاد کی گئیں اور انہیں اختیار دیا گیا کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے شوہر کے ساتھ رہیں یا ان سے الگ ہو جائیں اور تیسری بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن عائشہ ؓ کے گھر تشریف لائے، چولھے پر ہانڈی پک رہی تھی۔ آپ نے دوپہر کا کھانا طلب فرمایا تو روٹی اور گھر میں موجود سالن پیش کیا گیا۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا کیا میں نے گوشت (پکتے ہوئے) نہیں دیکھا ہے؟ عرض کیا کہ دیکھا ہے یا رسول اللہ! لیکن وہ گوشت تو بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے، انہوں نے ہمیں ہدیہ کے طور پر دیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ان کے لیے وہ صدقہ ہے لیکن ہمارے لیے ہدیہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qasim bin Muhammad (RA) : Three traditions have been established because of Barira: 'Aisha (RA) intended to buy her and set her free, but Barira's masters said, "Her wala' will be for us." 'Aisha (RA) mentioned that to Allah's Apostle (ﷺ) who said, "You could accept their condition if you wished, for the wala is for the one who manumits the slave." Barira was manumitted, then she was given the choice either to stay with her husband or leave him; One day Allah's Apostle (ﷺ) entered 'Aisha's house while there was a cooking pot of food boiling on the fire. The Prophet (ﷺ) asked for lunch, and he was presented with bread and some extra food from the home-made Udm (e.g. soup). He asked, "Don't I see meat (being cooked)?" They said, "Yes, O Allah's Apostle (ﷺ) ! But it is the meat that has been given to Barira in charity and she has given it to us as a present." He said, "For Barira it is alms, but for us it is a present."