باب: دعا پڑھ کر مریض پر پھونک مارنا اس طرح کہ منہ سے ذرا سا تھوک بھی نکلے
)
Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: An-Nafth while treating with a Ruqya)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5749.
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے چند صحابہ کرام ایک سفر کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ سفر کرتے رہے حتیٰ کہ انہوں نے (راستے میں) عرب کے ایک قبیلے کے ہاں پڑاؤ کیا تو ان سے ضیافت طلب کی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ اچانک اس قبیلے کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ کھایا۔ انہوں نے اس (کی صحت یابی) کے لیے پوری کوشش کی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ آخر ان میں سے کسی نے کہا: تم ان لوگوں کے پاس جاؤ جو تمہارے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں ممکن ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس کوئی چیز نہو چنانچہ صحابہ کرام ؓ کے پاس آئے اور کہا: لوگو! ہمارے سردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا ہے۔ ہم نے ہر طرح سے کوشش کی لیکن کسی چیز سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کیا تمہارے پاس اس کے لیے کوئی چیز ہے؟ صحابہ میں سے ایک صاحب نے کہا: ہاں، اللہ کی قسم! میں جھاڑ پھونک جانتا ہوں، لیکن ہم نے تم سے ضیافت طلب کی تھی جس کا تم نے انکار کردیا تھا لہذا میں بھی اس وقت تک دم نہیں کروں گا جب تک تم اس کی کوئی اجرت طے نہ کرو۔ چنانچہ انہوں نے کچھ بکریاں دینے پر معاملہ طر کرلیا اب یہ صحابی روانہ ہوئے اور سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرتے رہے۔ (اس کی برکت سے) وہ ایسے ہوگیا جیسے اس کی رسی کھل گئی ہو اور اس طرح چلنے لگا گویا اسے کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔ انہوں نے صحابہ کرام کو پوری طے شدہ اجرت دے دی۔ بعض صحابہ کرام نے کہا: بکریاں تقسیم کرلو لیکن جس نے دم کیا تھا کہنے لگا: ابھی نہیں پہلے ہم آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر صورت حال بیان کریں، پھر دیکھیں رسول اللہ ﷺ اس متعلق کیا حکم دیتے ہیں؟ چنانچہ ہپ سب حضرات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو صورت حال سے آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اس سے دم کیا جاسکتا ہے؟ تم نے بہت اچھا کیا۔ بکریاں تقسیم کرلو اور میرا بھی اپنے ساتھ حصہ لگاؤ۔“
تشریح:
(1) اس حدیث میں ہے کہ دم کرنے والا اپنا تھوک جمع کرتا رہا، پھر اس نے متاثرہ مقام پر لگا دیا۔ جب دم کرتے وقت تھوک لگانا جائز ہے تو ایسی پھونک مارنا جس میں لعاب دہن کی معمولی سی ملاوٹ ہو، بالاولیٰ جائز ہو گی۔ (2) سورۂ فاتحہ کا نام شفا بھی ہے، ایسے موقع پر اسے مریض پر پڑھ کر اس انداز سے پھونک مرنا تیر بہدف اثر رکھتا ہے۔ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان ثابت کیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دم کرتے وقت ایسی پھونک مارتے جس میں لعاب کی معمولی سی ملاوٹ ہوتی تھی۔ (سنن ابن ماجہ، الطب، حدیث: 3528) (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیم قرآن پر وقت لگانے کی مناسب اجرت لینا جائز ہے، اسی طرح دم کرنے کی اجرت بھی طے کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے فارغ ہونا اور اسے ذریعۂ معاش قرار دے لینا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ واللہ اعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5531
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5749
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5749
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5749
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
عربی زبان میں خالص پھونک کو نفخ کہا جاتا ہے جس میں تھوک کی ملاوٹ نہ ہو۔ اگر پھونک کے ساتھ تھوڑا سا تھوک ہو تو اسے نفث کہتے ہیں جبکہ خالص تھوک کو تفل یا بزاق کہا جاتا ہے۔ تھوتھو کرنے میں شیطان کی ذلت اور رسوائی مقصود ہے۔ واللہ اعلم
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے چند صحابہ کرام ایک سفر کے لیے روانہ ہوئے۔ وہ سفر کرتے رہے حتیٰ کہ انہوں نے (راستے میں) عرب کے ایک قبیلے کے ہاں پڑاؤ کیا تو ان سے ضیافت طلب کی لیکن انہوں نے انکار کردیا۔ اچانک اس قبیلے کے سردار کو کسی زہریلی چیز نے کاٹ کھایا۔ انہوں نے اس (کی صحت یابی) کے لیے پوری کوشش کی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ آخر ان میں سے کسی نے کہا: تم ان لوگوں کے پاس جاؤ جو تمہارے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں ممکن ہے کہ ان میں سے کسی کے پاس کوئی چیز نہو چنانچہ صحابہ کرام ؓ کے پاس آئے اور کہا: لوگو! ہمارے سردار کو کسی زہریلی چیز نے ڈس لیا ہے۔ ہم نے ہر طرح سے کوشش کی لیکن کسی چیز سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کیا تمہارے پاس اس کے لیے کوئی چیز ہے؟ صحابہ میں سے ایک صاحب نے کہا: ہاں، اللہ کی قسم! میں جھاڑ پھونک جانتا ہوں، لیکن ہم نے تم سے ضیافت طلب کی تھی جس کا تم نے انکار کردیا تھا لہذا میں بھی اس وقت تک دم نہیں کروں گا جب تک تم اس کی کوئی اجرت طے نہ کرو۔ چنانچہ انہوں نے کچھ بکریاں دینے پر معاملہ طر کرلیا اب یہ صحابی روانہ ہوئے اور سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرتے رہے۔ (اس کی برکت سے) وہ ایسے ہوگیا جیسے اس کی رسی کھل گئی ہو اور اس طرح چلنے لگا گویا اسے کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔ انہوں نے صحابہ کرام کو پوری طے شدہ اجرت دے دی۔ بعض صحابہ کرام نے کہا: بکریاں تقسیم کرلو لیکن جس نے دم کیا تھا کہنے لگا: ابھی نہیں پہلے ہم آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر صورت حال بیان کریں، پھر دیکھیں رسول اللہ ﷺ اس متعلق کیا حکم دیتے ہیں؟ چنانچہ ہپ سب حضرات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو صورت حال سے آگاہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اس سے دم کیا جاسکتا ہے؟ تم نے بہت اچھا کیا۔ بکریاں تقسیم کرلو اور میرا بھی اپنے ساتھ حصہ لگاؤ۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں ہے کہ دم کرنے والا اپنا تھوک جمع کرتا رہا، پھر اس نے متاثرہ مقام پر لگا دیا۔ جب دم کرتے وقت تھوک لگانا جائز ہے تو ایسی پھونک مارنا جس میں لعاب دہن کی معمولی سی ملاوٹ ہو، بالاولیٰ جائز ہو گی۔ (2) سورۂ فاتحہ کا نام شفا بھی ہے، ایسے موقع پر اسے مریض پر پڑھ کر اس انداز سے پھونک مرنا تیر بہدف اثر رکھتا ہے۔ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان ثابت کیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دم کرتے وقت ایسی پھونک مارتے جس میں لعاب کی معمولی سی ملاوٹ ہوتی تھی۔ (سنن ابن ماجہ، الطب، حدیث: 3528) (3) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیم قرآن پر وقت لگانے کی مناسب اجرت لینا جائز ہے، اسی طرح دم کرنے کی اجرت بھی طے کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے فارغ ہونا اور اسے ذریعۂ معاش قرار دے لینا کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ واللہ اعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا، ان سے ابو بشر (جعفر) ان سے ابو المتوکل علی بن داؤد نے اور ان سے ابوسعید خدری ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ کے چند صحابہ (۰۰۳نفر) ایک سفر کے لیے روانہ ہوئے جسے انہیں طے کرنا تھا راستے میں انہوں نے عرب کے ایک قبیلہ میں پڑاؤ کیا اور چاہا کہ قبیلہ والے ان کی مہمانی کریں لیکن انہوں نے انکار کیا، پھر اس قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا اسے اچھا کرنے کی ہر طرح کی کوشش انہوں نے کر ڈالی لیکن کسی سے کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ آخر انہیں میں سے کسی نے کہا کہ یہ لوگ جنہوں نے تمہارے قبیلہ میں پڑاؤ کر رکھا ہے ان کے پاس بھی چلو، ممکن ہے ان میںسے کسی کے پاس کوئی منتر ہو۔ چنانچہ وہ صحابہ کے پاس آئے اور کہا لوگو! ہمارے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے ہم نے ہر طرح کی بہت کوشش اس کے لیے کر ڈالی لیکن کسی سے کوئی فائدہ نہیں ہوا کیا تم لوگوں میں سے کس کے پاس اس کے لیے منترہے؟ صحابہ میں سے ایک صاحب (ابو سعید خدری ؓ ) نے کہا کہ ہاں واللہ میں جھاڑناجانتا ہوں لیکن ہم نے تم سے کہا تھا کہ ہماری مہمانی کرو (ہم مسافر ہیں) تو تم نے انکار کردیا تھا اس لیے میں بھی اس وقت تک نہیں جھاڑوں گا جب تک تم میرے لیے اس کی مزدوری نہ ٹھہرا دو۔ چنانچہ ان لوگوں نے کچھ بکریوں (۰۳) پر معاملہ کرلیا۔ اب یہ صحابی روانہ ہوئے۔ یہ زمین پر تھوکتے جاتے اور الحمدللہ رب العالمین پڑھتے جاتے اس کی برکت سے وہ ایسا ہو گیا جیسے اس کی رسی کھل گئی ہو اور وہ اس طرح چلنے لگا جیسے اسے کوئی تکلیف ہی نہ رہی ہو۔ بیان کیا کہ پھر وعدہ کے مطابق قبیلہ والوں نے ان صحابی کی مزدوری (۰۳ بکریاں) ادا کردی بعض لوگوں نے کہا کہ ان کو تقسیم کرلو لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا انہوں نے کہا کہ ابھی نہیں، پہلے ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں پوری صورت حال آپ کے سامنے بیان کردیں پھر دیکھیں آنحضرت ﷺ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں۔ چنانچہ سب لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سے اس کا ذکر کیا آپ نے فرمایا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوگیا تھا کہ اس سے دم کیا جاسکتا ہے؟ تم نے اچھا کیا جاؤ ان کو تقسیم کر لو اور میرا بھی اپنے ساتھ ایک حصہ لگاؤ۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہواکہ ایسے مواقع پر قرآن مجید پڑھنے پڑھانے پر اپنے ایثار وقت کی مناسبت اجرت لی جا سکتی ہے۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ مشکوک امور کے لیے شریعت کی روشنی میں علماءسے تحقیق کر لینا ضروری ہے۔ آیت ﴿فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون﴾(النحل:43) کا یہی مطلب ہے کہ جو بات نہ جانتے ہو اس کو جاننے والوں سے پوچھ لو جو لوگ اس آیت سے تقلید شخصی نکالتے ہیں وہ انتہائی جرات کرتے ہیں یہ آیت تقلید شخصی کو کاٹ کر ہر مسلمان کو تحقیق کا حکم دے رہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Said (RA) : A group of the companions of Allah's Apostle (ﷺ) proceeded on a journey till they dismounted near one of the Arab tribes and requested them to entertain them as their guests, but they (the tribe people) refused to entertain them. Then the chief of that tribe was bitten by a snake (or stung by a scorpion) and he was given all sorts of treatment, but all in vain. Some of them said, "Will you go to the group (those travelers) who have dismounted near you and see if one of them has something useful?" They came to them and said, "O the group! Our leader has been bitten by a snake (or stung by a scorpion) and we have treated him with everything but nothing benefited him Has anyone of you anything useful?" One of them replied, "Yes, by Allah, I know how to treat with a Ruqya. But. by Allah, we wanted you to receive us as your guests but you refused. I will not treat your patient with a Ruqya till you fix for us something as wages." Consequently they agreed to give those travellers a flock of sheep. The man went with them (the people of the tribe) and started spitting (on the bite) and reciting Surat-al-Fatiha till the patient was healed and started walking as if he had not been sick. When the tribe people paid them their wages they had agreed upon, some of them (the Prophet's companions) said, "Distribute (the sheep)." But the one who treated with the Ruqya said, "Do not do that till we go to Allah's Apostle (ﷺ) and mention to him what has happened, and see what he will order us." So they came to Allah's Apostle (ﷺ) and mentioned the story to him and he said, "How do you know that Surat-al-Fatiha is a Ruqya? You have done the right thing. Divide (what you have got) and assign for me a share with you."