Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: He who does not greet a person who has committed a sin)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اس وقت تک اس کے سلام کا جواب بھی نہیں دیا جب تک اس کا توبہ کرنا ظاہر نہیں ہوگیا اور کتنے دنوں تک گنہگار کا توبہ کرناظاہر ہوتا ہے؟ اور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ شراب پینے والوں کو سلام نہ کرو۔یہ بھی ایک موقع ہے جو الحب للہ والبغض للہ کو ظاہر کرتاہے۔
6255.
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوسکے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کر دی تھی، بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرتا تھا پھر دل میں کہتا تھا کہ دیکھوں آپ نے ہونٹ مبارک بلائے ہیں یا نہیں؟ آخر پورے پچاس دن گزر گئے تو نبی ﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں ہماری توبہ قبول کیے جانے کا اعلان نماز پڑھنے کے بعد کیا۔
تشریح:
(1)ابتلاء وآزمائش کا یہ عظیم واقعہ تھا جس سے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ دوچار ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت جہاد کی اہمیت کے پیش نظر حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جیسے جاں نثار اور اسلام کے فدائی کے لیے قطعاً یہ مناسب نہ تھا کہ وہ اس موقع پر سستی کا مظاہرہ کرتے، جیسے وہ خود عظیم المرتبت تھے، ان کی کوتاہی کو بھی وہی درجہ دیا گیا، ان سے سلام وکلام ختم کر دیا گیا حتی کہ ان کے جگری دوست حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے سلام کا جواب نہ دیا اور ان سے بات کرنا بھی گوارانہ کی۔ (2) اگرچہ اسلام میں سلام عام کرنے کا حکم ہے لیکن جمہور اہل علم نے سلام کے اس عام حکم سے فاسق و فاجر کے ساتھ سلام وکلام ختم کرنے کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نووی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر فاسق وفاجر سے کسی فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو سلام کہنے یا سلام کا جواب دینے میں کوئی حرج نہیں اور سلام کرتے وقت یہ نیت کرے کہ سلام اللہ تعالیٰ کا نام ہے گویا وہ سلام کے وقت یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔ (فتح الباري:49/11)واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6029
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6255
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6255
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6255
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
اس عنوان کے دو جز ہیں:٭فاسق اور بدعتی کو سلام نہ کیا جائے اور نہ اس کے سلام ہی کا جواب دیا جائے۔٭گناہ گار کی توبہ کے ظاہر ہونے کے لیے کتنی مدت درکار ہے؟توبہ کے ظہور کے لیے مدت کا تعین گناہ اور گناہ گار کے حالات وظروف پر موقوف ہے محض توبہ کرنا کافی نہیں بلکہ اتنی مدت کا گزرنا ضروری ہے جس سے پتا چل جائے کہ گناہ کرنے والے نے واقعی توبہ کی ہے اور وہ اپنے کیے ہوئے پر نادم ہو،نیز وہ اس کے تدراک کے لیے کوشاں ہو۔واللہ اعلم.امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا ایک اثر بیان کیا ہے جسے انھوں نے خود ہی الادب المفرد(حدیث:1017) میں متصل سند سے بیان کیا ہے لیکن اس کی سند میں عبیداللہ بن زحر راوی ضعیف ہے۔ بہرحال جو انسان ڈھٹائی کے ساتھ گناہ کرتا ہے اسے سلام کہنے یا اس کے سلام کا جواب دینے سے گزیر کرنا چاہیے۔واللہ اعلم
اور اس وقت تک اس کے سلام کا جواب بھی نہیں دیا جب تک اس کا توبہ کرنا ظاہر نہیں ہوگیا اور کتنے دنوں تک گنہگار کا توبہ کرناظاہر ہوتا ہے؟ اور حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے کہا کہ شراب پینے والوں کو سلام نہ کرو۔یہ بھی ایک موقع ہے جو الحب للہ والبغض للہ کو ظاہر کرتاہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ جب وہ غزوہ تبوک میں شریک نہیں ہوسکے تھے اور رسول اللہ ﷺ نے ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کر دی تھی، بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرتا تھا پھر دل میں کہتا تھا کہ دیکھوں آپ نے ہونٹ مبارک بلائے ہیں یا نہیں؟ آخر پورے پچاس دن گزر گئے تو نبی ﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں ہماری توبہ قبول کیے جانے کا اعلان نماز پڑھنے کے بعد کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1)ابتلاء وآزمائش کا یہ عظیم واقعہ تھا جس سے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ دوچار ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت جہاد کی اہمیت کے پیش نظر حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جیسے جاں نثار اور اسلام کے فدائی کے لیے قطعاً یہ مناسب نہ تھا کہ وہ اس موقع پر سستی کا مظاہرہ کرتے، جیسے وہ خود عظیم المرتبت تھے، ان کی کوتاہی کو بھی وہی درجہ دیا گیا، ان سے سلام وکلام ختم کر دیا گیا حتی کہ ان کے جگری دوست حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے سلام کا جواب نہ دیا اور ان سے بات کرنا بھی گوارانہ کی۔ (2) اگرچہ اسلام میں سلام عام کرنے کا حکم ہے لیکن جمہور اہل علم نے سلام کے اس عام حکم سے فاسق و فاجر کے ساتھ سلام وکلام ختم کرنے کو مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام نووی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر فاسق وفاجر سے کسی فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو سلام کہنے یا سلام کا جواب دینے میں کوئی حرج نہیں اور سلام کرتے وقت یہ نیت کرے کہ سلام اللہ تعالیٰ کا نام ہے گویا وہ سلام کے وقت یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر نگران ہے۔ (فتح الباري:49/11)واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبد الرحمن بن عبد اللہ نے اور ان سے عبد اللہ بن کعب نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ جب وہ غزوئہ تبوک میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور نبی کریم ﷺ نے ہم سے بات چیت کرنے کی ممانعت کر دی تھی اورميں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرتا تھا اور یہ اندازہ لگاتا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے جواب سلام میں ہونٹ مبارک ہلائے یا نہیں، آخر پچاس دن گزرگئے اور آنحضرت ﷺ نے اللہ کی بارگاہ میں ہماری توبہ کے قبول کئے جانے کا نماز فجر کے بعد اعلان کیا۔
حدیث حاشیہ:
یہ ایک عظیم واقعہ تھا جس سے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ متہم ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعوت جہاد کی اہمیت کے پیش نظر کعب بن مالک جیسے نیک وصالح فدائی اسلام کے لئے یہ تساہل مناسب نہ تھا وہ جیسے عظیم المرتبت تھے ان کی کوتاہی کو بھی وہی درجہ دیا گیا اور انہوں نے جس صبر وشکر وپامردی کے ساتھ اس امتحان میں کامیابی حاصل کی وہ بھی لائق صد تبریک ہے اب یہ امر امام وخلیفہ کی دوراندیشی پر موقوف ہے کہ وہ کسی بھی ایسی لغزش کے مرتکب کو کس حد تک قابل سرزنش سمجھتا ہے۔ یہ ہرکس و ناکس کامقام نہیں ہے فافھم ولاتکن من القاصرین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Ka'b (RA) : I heard Ka'b bin Malik narrating (when he did not join the battle of Tabuk): Allah's Apostle (ﷺ) forbade all the Muslims to speak to us. I would come to Allah's Apostle (ﷺ) and greet him, and I would wonder whether the Prophet (ﷺ) did move his lips to return to my greetings or not till fifty nights passed away. The Prophet (ﷺ) then announced (to the people) Allah's forgiveness for us (acceptance of our repentance) at the time when he had offered the Fajr (morning) prayer.