Sahi-Bukhari:
To make the Heart Tender (Ar-Riqaq)
(Chapter: )
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6506.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتٰی کہ سورج اپنے مغرب سے طلوع ہوگا۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا اورلوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے۔ یہی وہ وقت ہوگا جب کسی کے لیے اس کا ایمان نفع نہیں دے گا جو اس سے قبل ایمان نہیں لایا ہوگا (یا جس نے ایمان کے بعد عمل خیر نہ کمایا ہوگا)۔ قیامت اس قدر جلد آ جائے گی کہ دو آدمیوں نے کپڑا کھولا ہوگا لیکن وہ خرید وفروخت نہیں کرسکیں گے اور نہ اسے لپیٹ ہی سکیں گے۔ اور قیامت قائم ہو جائے گی جبکہ ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر آ رہا ہوگا اور وہ اسے پی نہیں سکے گا، اور قیامت اس حال میں آ جائے گی کہ ایک شخص اپنا حوض تیار کر رہا ہوگا اور اس سے پانی نہیں پی سکے گا۔ اور قیامت آجائے گی جبکہ ایک آدمی اپنا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور وہ اس کو کھا نہیں سکے گا۔
تشریح:
(1) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’‘جب تین چیزوں کا ظہور ہو جائے گا تو اس وقت کسی کے لیے اس کا ایمان نفع نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہو گا یا جس نے ایمان کے بعد عمل خیر نہیں کمایا ہو گا، ان میں سے ایک سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دوسرا دجال کا آ جانا اور تیسرا دابۃ الارض کا برآمد ہو جانا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 398 (158)) (2) مغرب کی جانب سے طلوع سورج کے بعد کافر کا ایمان اسے کوئی نفع نہیں دے گا کیونکہ اس وقت ایمان لانا جب قیامت کے آثار ظاہر ہونے لگیں موت کے وقت ایمان لانے کی طرح ہے اور غرغرہ کے وقت ایمان لانا مفید نہیں ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’بندے کی توبہ اس وقت تک قبول ہے جب تک وہ غرغرہ میں مبتلا نہ ہو، جب یہ کیفیت شروع ہو جائے تو ایمان لانا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4253) اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جب انہوں نے اللہ کا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان لانے نے انہیں کچھ نفع نہ دیا۔‘‘(المؤمن: 85) (3) جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا تو اسی وقت خروج دابہ ہو گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی حکمت یہ بیان کرتے ہیں کہ مغرب سے طلوع سورج کے وقت توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا تو دابہ کا ظہور ہو گا جو مومن کو کافر سے ممتاز کر دے گا تاکہ اس مقصد کی تکمیل ہو جائے جو توبہ کا دروازہ بند کر دینے سے مقصود ہے۔ (فتح الباري: 429/11) (4) واضح رہے کہ غرغرہ سے مراد نزع کا وقت ہے جب قبض روح کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جب موت کے فرشتے ظاہر ہو جاتے ہیں تو عالم آخرت سے تعلق قائم ہو جاتا ہے، اس لیے توبہ کی مہلت ختم ہو جاتی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6277
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6506
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6506
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6506
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''وہی تو ہے جس نے زمین پر موجود تمام چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔'' (البقرۃ: 2/29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زمین کی ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے بلکہ دوسرے مقام پر اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا: ''جو کچھ آسمانوں میں ہے یا زمین میں، اس نے سب کچھ اپنی طرف سے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔'' (الجاثیۃ: 45/13) کائنات کی ہر چیز سے انسان کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچ رہا ہے، مثلاً: پانی، ہوا، زمین میں مدفون خزانے، سمندر، پہاڑ، سورج، چاند اور ستارے، الغرض ہر چیز انسان کے فائدے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے تاکہ کائنات کی اشیاء سے فائدہ اٹھا کر محسن کا شکر ادا کرے اور اس کی عبادت میں خود کو مصروف رکھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔'' (الذاریات: 51/56)اس آیت کے پیش نظر انسان ہر وقت اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے اور اسے ہر حال میں اس کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہنا چاہیے لیکن بعض اوقات انسان حصول دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق کے حق کو نظر انداز کر کے صرف دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے، پھر جوں جوں اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا جاتا ہے اس کا دل سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''یہ اہل ایمان ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔ پھر ان پر لمبی مدت گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے۔'' (الحدید: 57/16) اس آیت میں تنبیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور بندگی سے غافل رہنا ایسی بیماری ہے جس سے دل سخت ہو جاتے ہیں، پھر ان میں فسق و فجور کے داخلے کے لیے دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلوں کی سختی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں رکاوٹ کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی برائی کو کئی ایک مقام پر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''ان لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کی یاد سے (غفلت کی بنا پر) سخت ہو گئے۔'' (الزمر: 39/22) دوسرے مقام پر فرمایا: ''پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اتنے سخت جیسے پتھر ہوں یا ان سے بھی سخت تر۔'' (البقرۃ: 2/74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی رہنمائی کرتے ہوئے مختلف انداز میں ''اصلاح قلوب، یعنی دلوں کی اصلاح اور درستی کی تدابیر بتائی ہیں، نیز بتایا ہے کہ اعمال کی اصلاح، دلوں کی اصلاح پر موقوف ہے، آپ نے فرمایا: ''آگاہ رہو! جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو سارا جسم صحیح رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ آگاہ رہو وہ دل ہے۔'' (صحیح البخاری، الایمان، حدیث: 52) امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ''اصلاح قلوب'' کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان ''کتاب الرقاق'' کے نام سے قائم کیا ہے۔رِقَاق، رَقِيقَة کی جمع ہے جس کے معنی ہیں: نرمی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت ایک سو ترانوے (193) ایسی مرفوع احادیث پیش کی ہیں جنہیں پڑھ کر دل میں رقت اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جن میں تینتیس (33) معلق اور ایک سو ساٹھ (160) احادیث متصل اسناد سے مروی ہیں، پھر ان میں ایک سو چونتیس (134) مکرر اور انسٹھ (59) احادیث خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی سترہ (17) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث و آثار پر تریپن چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جائے۔ ان میں دنیا کی بے ثباتی، آخرت کا دوام اور ہمیشگی، مال و دولت سے بے نیازی، فکر آخرت، اخلاص و للہیت، تواضع و انکسار، گناہوں سے نفرت اور نیک اعمال سے محبت اور ان کے اثرات کو خاص طور پر بیان کیا ہے۔دور حاضر میں آزاد فکری اور روشن خیالی کا بہت چرچا ہے، ایسے حالات میں مذکورہ عنوان اور اس کے تحت پیش کردہ احادیث اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں دلوں میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے بہت سے عوام کارفرما ہیں لیکن ان کی اصلاح کے لیے فکر آخرت ہی کافی ہے۔ ان احادیث کو پڑھیے اور اپنے اندر فکر آخرت پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں یہ عنوان اس طرح ہے: (باب طلوع الشمس من مغربها) ''مغرب سے سورج کا طلوع ہونا'' یہ حدیث کے مناسب ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ عنوان پہلے عنوان کا تکملہ اور تتمہ ہے کیونکہ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا قیامت قائم ہونے کے وقت ہو گا۔ (فتح الباری: 11/428)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی حتٰی کہ سورج اپنے مغرب سے طلوع ہوگا۔ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا اورلوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے۔ یہی وہ وقت ہوگا جب کسی کے لیے اس کا ایمان نفع نہیں دے گا جو اس سے قبل ایمان نہیں لایا ہوگا (یا جس نے ایمان کے بعد عمل خیر نہ کمایا ہوگا)۔ قیامت اس قدر جلد آ جائے گی کہ دو آدمیوں نے کپڑا کھولا ہوگا لیکن وہ خرید وفروخت نہیں کرسکیں گے اور نہ اسے لپیٹ ہی سکیں گے۔ اور قیامت قائم ہو جائے گی جبکہ ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر آ رہا ہوگا اور وہ اسے پی نہیں سکے گا، اور قیامت اس حال میں آ جائے گی کہ ایک شخص اپنا حوض تیار کر رہا ہوگا اور اس سے پانی نہیں پی سکے گا۔ اور قیامت آجائے گی جبکہ ایک آدمی اپنا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور وہ اس کو کھا نہیں سکے گا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’‘جب تین چیزوں کا ظہور ہو جائے گا تو اس وقت کسی کے لیے اس کا ایمان نفع نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہو گا یا جس نے ایمان کے بعد عمل خیر نہیں کمایا ہو گا، ان میں سے ایک سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دوسرا دجال کا آ جانا اور تیسرا دابۃ الارض کا برآمد ہو جانا۔‘‘ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 398 (158)) (2) مغرب کی جانب سے طلوع سورج کے بعد کافر کا ایمان اسے کوئی نفع نہیں دے گا کیونکہ اس وقت ایمان لانا جب قیامت کے آثار ظاہر ہونے لگیں موت کے وقت ایمان لانے کی طرح ہے اور غرغرہ کے وقت ایمان لانا مفید نہیں ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’بندے کی توبہ اس وقت تک قبول ہے جب تک وہ غرغرہ میں مبتلا نہ ہو، جب یہ کیفیت شروع ہو جائے تو ایمان لانا کوئی فائدہ نہیں دے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4253) اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جب انہوں نے اللہ کا عذاب دیکھ لیا تو ان کے ایمان لانے نے انہیں کچھ نفع نہ دیا۔‘‘(المؤمن: 85) (3) جب سورج مغرب سے طلوع ہو گا تو اسی وقت خروج دابہ ہو گا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی حکمت یہ بیان کرتے ہیں کہ مغرب سے طلوع سورج کے وقت توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا تو دابہ کا ظہور ہو گا جو مومن کو کافر سے ممتاز کر دے گا تاکہ اس مقصد کی تکمیل ہو جائے جو توبہ کا دروازہ بند کر دینے سے مقصود ہے۔ (فتح الباري: 429/11) (4) واضح رہے کہ غرغرہ سے مراد نزع کا وقت ہے جب قبض روح کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جب موت کے فرشتے ظاہر ہو جاتے ہیں تو عالم آخرت سے تعلق قائم ہو جاتا ہے، اس لیے توبہ کی مہلت ختم ہو جاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا ہم سے ابو الزناد نے بیان کیا، ان سے عبد الرحمن نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک سورج مغرب سے نہ نکلے گا۔ جب سورج مغرب سے نکلے گا اور لوگ دیکھ لیں گے تو سب ایمان لے آئیں گے، یہی وہ وقت ہوگا جب کسی کے لئے اس کا ایمان نفع نہیں دے گا جو اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہو گا یا جس نے ایمان کے بعد عمل خیر نہ کیا ہو۔ پس قیامت آ جائے گی اور دو آدمی کپڑا درمیان میں (خرید وفروخت کے لئے) پھیلائے ہوئے ہوں گے۔ ابھی خرید وفروخت بھی نہیں ہو چکی ہوگی اور نہ انہوں نے اسے لپیٹا ہی ہوگا (کہ قیامت قائم ہو جائے گی) اور قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ لے کر آ رہا ہوگا اور اسے پی بھی نہیں سکے گا اور قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنا حوض تیار کرا رہا ہوگا اور اس کا پانی بھی نہ پی پائے گا۔ قیامت اس حال میں قائم ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنا لقمہ اپنے منہ کی طرف اٹھائے گا اور اسے کھا نے بھی نہ پائے ہوگا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قیامت اچانک ہی آجائے گی کسی کو خبر بھی نہ ہوگی لوگ اپنے اپنے دھند وں میں مصروف ہوں گے کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "The Hour will not be established till the sun rises from the west, and when it rises (from the west) and the people see it, then all of them will believe (in Allah). But that will be the time when 'No good it will do to a soul to believe then. If it believed not before.."' (6.158) The Hour will be established (so suddenly) that two persons spreading a garment between them will not be able to finish their bargain, nor will they be able to fold it up. The Hour will be established while a man is carrying the milk of his she-camel, but cannot drink it; and the Hour will be established when someone is not able to prepare the tank to water his livestock from it; and the Hour will be established when some of you has raised his food to his mouth but cannot eat it."