تشریح:
(1) ”مسیح دجال“ احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت سے قبل ایک شخص دنیا پر غلبہ حال کر لے گا۔ وہ دنیوی طور پر ترقی یافتہ ہوگا اور لوگوں کو اپنے سائنسی و دیگر کمالات سے مرعوب کرے گا۔ دینی طور پر وہ رب ہونے کا دعویٰ کرے گا اور سب لوگوں کو اپنا کلمہ پڑھوانے کی کوشش کرے گا۔ سخت دغا باز اور دھوکے باز ہوگا۔ یہ دجال کے معنیٰ ہیں۔ مسیح اسے اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ ممسوح العین (کانا) ہوگا۔ یہودی اسے اپنا نجات دہندہ قرار دیں گے۔ وہ اسی کے انتظار میں ہیں، ورنہ حقیقی مسیح تو کب کا آچکا جسے انھوں نے نہ مانا۔ اس جعلی مسیح کو مانیں گے جو ان میں سے ہوگا۔ دونوں آنکھوں سے عیب ناک ہوگا۔ یہودیوں نے حقیقی مسیح عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دینے کی ناپاک جسارت کی تو اللہ تعالیٰ نے انھیں یہودیوں کے شر سے بچانے کے لیے زندہ آسمان پر اٹھا لیا اور قیامت کے نزدیک اللہ تعالیٰ انھیں پھر زمین پر اتارے گا، وہ اس جعلی دھوکے باز مسیح کو قتل کر کے اس کی مسیحیت کا بھانڈا پھوڑ دیں گے اور دنیا کو اس کے ظلم و ستم سے نجات دلائیں گے۔ اس کے قتل سے یہودیت کا خاتمہ ہو جائے گا اور عیسائیت کو عیسیٰ علیہ السلام اپنی زبانی اور اپنے ہاتھوں سے ختم کر دیں گے۔ عیسائیت کے نشان صلیب اور خنزیر کا نام و نشان مٹائیں گے۔ خالص اسلام کا بول بالا ہوگا۔ ان شاء اللہ۔
(2) ”زندگی کا فتنہ“ یہ ہے کہ انسان زندگی میں رب تعالیٰ کا نافرمان رہے۔ دین حق سے برگشتہ رہے۔ زندگی کی خوش نمائیوں میں کھو کر حق تعالیٰ سے غافل رہے۔ اور ”موت کا فتنہ“ یہ ہے کہ مرتے وقت شیطان گمراہ کر دے۔ کلمۂ توحید نصیب نہ ہو۔ بری حالت پر موت آئے۔ العیاذ باللہ۔ ممکن ہے اس عذاب قبر، یعنی سوال و جواب میں ناکامی مراد ہو۔ يا مُقَلِّبَ القلوبِ ثَبِّتْ قلوبَنا على دينِكَ۔
(3) اپنے وسائل سے بڑھ کر قرض اٹھانا کہ بعد میں اس ادا نہ کیا جاسکے، درست نہیں ہے۔
(4) وعدہ خلافی کرنا اور جھوٹ بولنا حرام ہے۔
(5) مذکورہ اشیاء سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح. وأخرجه البخاري ومسلم وأبو عوانة في
"صحاحهم ") .
إسناده: حدثنا عمرو بن عثمان: ثنا بقية: ثنا شعيب عن الزهري عن عروة
أن عائشة أخبرته.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات، وقد صرح بقية بالتحديث؛ وقد
توبع كما يأتي.
والحديث أخرجه النسائي (1/193) ... بإسناد المصنف ولفظه، إلا أنه قال:
حدثنا أبي؛ مكان: ثنا بقية! فلا أدري أهو خطأ من بعض النساخ لكتاب "للسن "،
أو أن لعمرو بن عثمان شيخين، أحدهما: أبوه عثمان- وهو ابن سعيد بن كثير بن
دينار الحمصي-، والآخر: بقية، حدث به تارة عن هذا، وتارة عن هذا؟! والله أعلم.
والحديث أخرجه البخاري (2/137) ، وأحمد (6/88) - بإسناد واحد-
فقالا: ثنا أبو اليمان قال: أنا شعيب... به.
وأخرجه مسلم (2/93) ، وأبو عوانة (2/236- 237) ، والبيهقي (2/154)
من طرق أخرى عن أبي اليمان... به.