تشریح:
(1) سواری کی صورت میں جنازے کے آگے چلنے سے روکا ہے کیونکہ وہ جنازے کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہے، مثلاً: جانور اڑ جائے، انجن بند ہو جائے وغیرہ۔ بنا بریں معلوم ہوا کہ جنازے کے ساتھ سوار ہوکر جانا جائز ہے، البتہ جنازے سے پیچھے رہنا چاہیے۔
(2) ”بچے کا جنازہ“ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسے عام سمجھا ہے، خواہ بچہ زندہ پیدا ہو یا مردہ کیونکہ میت بھی تو پہلے زندہ ہی تھا الا یہ کہ مدت حمل چار ماہ سے کم ہو کیونکہ اس صورت میں وہ مکمل انسانی صورت میں نہ ہوگا اور اس میں روح نہیں پھونکی گئی ہوگی۔ جمہور اہل علم اس بچے کے جنازے کے قائل ہیں جو زندہ پیدا ہو، بعد میں مرے، خواہ اس میں زندگی کی کوئی بھی علامت پائی گئی ہو۔ لیکن امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کا موقف راجح ہے کیونکہ حدیث میں [السَّقطُ يُصلّى عليه] کے الفاظ بھی آتے ہیں جیسا کہ سنن ابی داود (الجنائز، حدیث: ۳۱۸۰) میں ہے۔ یہ حدیث عام ہے۔ ناقص یا نا تمام پیدا ہونے والا بچہ چیخے، یعنی بوقت ولادت اس کے اندر زندگی کے آثار ہوں یا مردہ ہی ہو بشرطیکہ یہ نفخ روح کی مدت کے بعد ہو، تو اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائز اور مشروع ہے۔ مزید دیکھیے: فوائد سنن ابی داود، حدیث: ۳۱۸۰۔