قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن النسائي: كِتَابُ الْجَنَائِزِ (بَابُ الصَّلَاةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ)

حکم : صحیح 

1966. أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ دُعِيَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَبْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُصَلِّي عَلَى ابْنِ أُبَيٍّ وَقَدْ قَالَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا أُعَدِّدُ عَلَيْهِ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ فَلَمَّا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ قَالَ إِنِّي قَدْ خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ فَلَوْ عَلِمْتُ أَنِّي لَوْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ غُفِرَ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمْ يَمْكُثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ الْآيَتَانِ مِنْ بَرَاءَةَ وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ فَعَجِبْتُ بَعْدُ مِنْ جُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ

مترجم:

1966.

حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) مر گیا تو رسول اللہ ﷺ کو اس کا جنازہ پڑھنے کے لیے بلایا گیا۔ جب رسول اللہ ﷺ (جنازہ پڑھنے کے لیے) کھڑے ہوگئے، میں جلدی سے آپ کے سامنے جا کھڑا ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ ابن ابی کا جنازہ پڑھتے ہیں، حالانکہ اس نے فلاں فلاں دن ایسی ایسی باتیں کیں؟ میں (اس کی شرارتیں) شمار کرنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ مسکراتے رہے، آخر فرمایا: ”عمر! ایک طرف ہٹ جاؤ۔“ جب میں نے اپنی بات پر اصرار کیا تو آپ نے فرمایا: ”مجھے اختیار دیا گیا ہے (کہ استغفار کرو یا نہ کرو، اللہ مغفرت نہ کرے گا) تو میں نے استغفار کو اختیار کیا ہے۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ میں ستر دفعہ سے زائد استغفار کروں تو اسے معافی ہو جائے گی تو میں یقیناً ستر دفعہ سے زائد بھی استغفار کر دیا۔“ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے جنازہ پڑھ دیا، پھر واپس تشریف لے گئے۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سورۂ براءت کی دو آیتیں اتریں: (ولا تصل علی احد………الأیۃ) ”اے نبی! ان منافقوں میں سے کوئی مر جائے تو ہرگز اس کا جنازہ نہ پڑھیں اور نہ ان کی قبر پر (دعائے مغفرت کے لیے) جائیں کیونکہ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور پھر اسی انکار و فسق کی حالت میں فوت ہوئے۔“ بعد میں مجھے اپنی اس جرأت پر، جو میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کی، بہت تعجب ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ زیادہ علم رکھنے والے ہیں۔