تشریح:
(1) یہ عورت ام محجن رضی اللہ عنہا تھیں۔ مسجد کی صفائی سے خصوصی شغف رکھتی تھیں۔ ان کی تکریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مندرجہ بالا ارشاد فرمایا تھا۔
(2) ”دفن کر دیا“ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صحابہ کے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام کس قدر تھا کہ آپ کو جگانا بھی ناپسند یا اسے سوء ادب خیال کرتے تھے۔ باقی رہا آپ کا فرمان تو اسے انھوں نے معمول پر محمول کیا، نہ کہ خصوصی حکم پر تبھی تو آپ نے بعد میں ان پر ناراضی کا اظہار نہ فرمایا۔
(3) ”چار تکبیریں کہیں“ اس کا منشا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ جنازہ پڑھا نہ کہ صرف دعا کی ورنہ صلی کے معنیٰ دعا بھی ہوسکتے ہیں۔
(4) اس حدیث سے امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کا جنازہ رات کو پڑھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار بھی نہیں فرمایا۔
(5) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبر پر جنازہ پڑھا جا سکتا ہے اگرچہ میت کو جنازہ پڑھ کر دفن کیا گیا ہو، نیز دوسرے جنازے میں پہلے جنازے والے لوگ بھی شریک ہوسکتے ہیں ورنہ صحابہ الگ کھڑے رہتے۔ معلوم ہوا دوبارہ جنازہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا نہیں۔