تشریح:
(1) حجاج اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے متعلق تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث ۲۷۴۷ کا فائدہ: ۱۔
(2) ”دونوں کا معاملہ ایک ہے“ یعنی اگر بیت اللہ تک نہ پہنچ سکے اور رکاوٹ پڑ گئی تو پھر، خواہ احرام عمرے کا ہو یا حج کا یا دونوں کا، حلال ہونے کا طریقہ ایک ہی ہے۔ اگر رکاوٹ نہ پڑی تو جس طرح عمرہ ہو سکتا ہے، حج بھی ہو سکے گا، لہٰذا عمرے کے ساتھ حج کا احرام باندھنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
(3) احصار سے مراد ہے کہ محرم بیت اللہ تک نہ پہنچ سکے، خواہ دشمن رکاوٹ ڈال دے جیسے عمرہ حدیبیہ میں ہوا یا کوئی مرض وغیرہ انسان کو لاچار کر دے کہ وہ سفر جاری نہ رکھ سکے۔ ہر دو صورتوں میں اگر ساتھ قربانی کا جانور ہو تو اسے ذبح کر دیا جائے اور اگر اسے حرم بھیجا جا سکتا ہو تو بھیج دیا جائے۔ جانور کے ذبح کرنے کے بعد وہ حجامت وغیرہ کروائے اور حلال ہو جائے۔ اگر وہ حج فرض تھا تو آئندہ پھر کرے، بشرطیکہ استطاعت رکھتا ہو، ورنہ معاف ہے۔ یہی حکم عمرے کا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر وہ عمرے کا احرام تھا یا نفل حج کا تو دوبارہ قضا وغیرہ کی ضرورت نہیں جیسے عمرہ حدیبیہ میں ہوا۔ نبیﷺ نے کسی کو پابند نہیں فرمایا کہ بعد میں اس کی قضا دیں۔ لیکن راجح موقف کے مطابق عمرے کی ادائیگی بھی واجب ہے، اس لیے اگر کسی کا واجب عمرہ رہ جائے یا اس کی تکمیل نہ ہو پائے تو آئندہ سال اسے استطاعت کی صورت میں اس کی قضا ادا کرنا ہوگی۔ رہا یہ موقف کہ مطلقاً عمرے کی دوبارہ قضا ضروری نہیں اور دلیل میں عمرہ حدیبیہ سے استدلال کرنا، تو یہ محل نظر ہے۔ اولاً: اس لیے کہ آئندہ سال عمرہ کرنے کا معاہدہ ہو چکا تھا، لہٰذا مزید حکم کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ ثانیاً: راجح موقف کے مطابق حج کی فرضیت تو ۹ہجری میں ہوئی تو اس سے قبل عمرے کے وجوب کے کیا معنیٰ؟ اس لیے رسول اللہﷺ نے حکماً کسی کو پابند نہیں فرمایا۔ واللہ أعلم