تشریح:
(۱) امام نسائی رحمہ اللہ کے اس حدیث میں دو استاد ہیں: اسحاق بن ابراہیم اور محمد بن عبدالاعلیٰ۔ امام صاحب نے دونوں سے روایت بیان کی ہے اور جن الفاظ میں دونوں کا اختلاف تھا ان کی نشاندہی بھی کردی۔ اس لحاظ سے امام صاحب کا نیچے یہ کہنا کہ ’’یہ الفاظ محمد عبدالاعلیٰ کے ہیں‘‘ محل نظر ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ دونوں استاتذہ کی حدیث کا سیاق باہم مختلف اور متضاد ہے صرف معنی ومفہوم ایک ہے۔ اس طرح امام صاحب کی یہ دونوں وضاحتیں باہم متضاد معلوم ہوتی ہیں۔ واللہ اعلم۔ افادہ الاتیوبی رحمہ اللہ دیکھیے: (ذخیرہ العقبیٰ شرح سنن النسائی:۲۹/۲۴) (۲) یہ دونوں روایات حضرت عکرمہ سے مروی ہیں جو تابعی ہیں۔ گویا وہ موقع پر موجود نہیں تھے۔ ایسی روایت کو مرسل کہا جاتا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس راویی کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔ اور مسند (متصل) روایت (۳۴۸۷) کو صحیح تسلیم نہیں کیا‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت متصلاً بھی ثابت ہے اور تعدد طرق اور شواہد کی بنا پر صحیح ہے ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ارواء میں اس پر مفصل بحث کی ہے اور یہی نتیجہ نکالا ہے۔ دیکھیے: (الاروا: ۷/۱۷۸۔ ۱۸۰) وذخیرۃ العقبیٰ) شرح سنن النسائی: ۲۹/۶۱، ۶۲و۲۴، ۶۵)