تشریح:
(1) آپ کی ازواج مطہرات کو آپ پر یہ اعتراض تھا کہ آپ حضرت عائشہؓ سے محبت زیادہ فرماتے ہیں‘ ورنہ آپ باری اور نفقہ وغیرہ میں پورا پورا انصاف فرماتے تھے۔ باقی رہی دلی محبت‘ تو وہ غیر اختیاری چیز ہے۔ اس کے متعلق منجانب اللہ کوئی گرفت ہوسکی ہے نہ عوام الناس کے نزدیک۔ ازواج مطہرات کو سوکن ہونے کے ناتے زیادہ محسوس ہوتا تھا‘ ورنہ کوئی اعتراض کی بات نہیں تھی۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے‘ سابقہ حدیث: ۳۳۹۵)
(2) ”ابوقجافہ کی بیٹی“ یہ بطور کسر شان کہا کیونکہ عرب جب کسی کی حقارت ظاہر کرنا چاہتے تھے تو اسے غیر مشہور باپ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ ابوقحافہ دراصل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد کا نام تھا جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ باپ کی بجائے دادا کی طرف نسبت کی۔
(3) ”میرے برابر مرتبہ رکھتی تھیں“ کیونکہ وہ رسول اللہﷺ کے خاندان سے تھیں۔ آپ کی پھوپھی کی بیٹی تھیں‘ نیز ان سے نکاح اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے ہوا تھا۔
(4) ’’بدلہ لوں“ مراد گالی گلوچ نہیں بلکہ الزام تراشی اور نکتہ چینی ہے۔ باوجود ان کے خلاف اس قدر بولنے کے حضرت عائشہؓ نے جو تعریف حضرت زینبؓ کی فرمائی اس سے زیادہ ممکن نہیں اور جب ان کی کمزوری (تیز روشنی) کا ذکر فرمایا تھا تو ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ یہ تیزی بھی جلد ہی ختم ہوجایا کرتی تھی۔ قربان جائیں ام المومنین کے اخلاق عالیہ وفاضلہ پر۔ ان خوبیوں کی بدولت ہی تو رسول اللہﷺ کو ان سے اتنی محبت تھی۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْهن وَأَرْضَاهن۔
(5) ”ابوبکر کی بیٹی ہے۔“ تعریف فرمائی ان کے حسن خلق‘ صبروبرداشت اور جچا تلا کلام کرنے اور فصاحت وبلاغت کی جس نے حضرت زینبؓ کو چپ کرنے پر مجبور کردیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میں بھی یہ اوصاف بدرجۂ اتم پائے جاتے تھے‘ اس لیے ان کی طرف نسبت فرمائی ورنہ یہ بھی فرما سکتے تھے ”یہ عائشہ ہے۔“
(6) ازواج مطہرات کے یہ اعتراضات اور آپس میں کش مکش ابتدائی دور میں تھی۔ جوں جوں وہ صحبت نبوت سے فیض یافتہ ہوتی گئیں‘ ان کی قلبی تطہیروتزیین ہوتی گئی‘ چنانچہ پھر نہ تو کبھی انہوں نے آپ پر کوئی اعتراض کیا ‘ نہ کوئی مطالبہ کیا اور نہ آپس میں کش مکش رہی۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْهن وَأَرْضَاهن۔