تشریح:
(1) یہ حدیث مبارکہ قسامت کی مشروعیت کی صریح دلیل ہے۔ مسئلہ اب بھی اسی طرح ہے۔ جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں۔
(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہم معاملے میں بڑی عمر والے ہی کو مقدم کیا جائے۔ پہلے اسے بات کرنے کا موقع دیا جائے بشرطیکہ اس میں اس کی اہلیت ہو۔ ہاں اگر بڑی عمر والا ایسی صلاحیت سے عاری ہو تو پھر چھوٹے کی بات کا اعتبار ہوگا۔
(3) قسامت میں قتل ثابت کرنے کے لیے بالجزم اور پختہ قسمیں کھانا ضروری ہے، مقتول شخص کو قتل ہوتے دیکھا ہو یا پھر کسی پختہ ذریعے سے قاتل کی اطلاع ملی ہو۔ اس کے علاوہ، محض گمان کی بنیاد پر قتل ثابت نہیں ہوگا۔
(4) عبداللہ بن سہل اور محیصہ آپس میں چچا زاد بھائی تھے۔ خیبر میں ان کی زمین تھی جو خیبر کی غنیمت سے ملی تھی۔
(5) ”حق دار بنتے ہو“ بعض روایات میں پہلے یہودیوں سے قسم لینے کا ذکر ہے کیونکہ وہ مدعی علیہ تھے اور قسم مدعی علیہ کا حق ہے۔ اس حدیث میں مدعیان سے پہلے قسم لینے کا ذکر ہے۔ قسامت میں دوسری صورت کے مطابق ہی عمل ہوگا، اسی قسم کی روایات کو ترجیح حاصل ہے، اگرچہ عام معاملات میں مدعی کے ذمے دلیل اور مدعی علیہ پر قسم ہوتی ہے۔ واللہ أعلم