باب: سہل کی اس حدیث کی روایت میں راویوں کے اختلاف الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Mentioning The Different Wordings In The Report Of Sahl)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4718.
حضرت بشیر بن یسار نے بتایا کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود ؓ خیبر گئے اور اپنے اپنے کاموں میں ادھر ادھر ہوگئے تو عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے۔ محیصہ مدینہ منورہ آئے اور اپنے بھائی حویصہ اور (مقتول کے بھائی) عبدالرحمن بن سہل سمیت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے (مقتول عبداللہ کے) بھائی ہونے کی وجہ سے عبدالرحمن بات کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بڑے کو پہلے بات کرنے دو۔“ پھر حویصہ اور محیصہ نے آپ سے بات چیت کی اور عبداللہ بن سہل کا مسئلہ پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تم پچاس قسمیں کھا کر اپنے مقتول کے خون یا اپنے قاتل کے مستحق بنتے ہو۔؟“امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید نے کہا: بشیر بن یسار نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے پاس (بیت المال) سے دیت ادا فرما دی۔ سعید بن عبید الطائی نے ان (بشیر بن یسار سے روایت کرنے والوں) کی مخالفت کی ہے۔
تشریح:
اس کی وضاحت یہ ہے کہ بشیر بن یسار سے بیان کرنے والے دیگر روائِ حدیث نے صرف قسمیں لینے کا ذکر کیا ہے گواہوں کا نہیں جبکہ سعید بن عبید طائی نے (حدیث: ۴۷۲۳ میں) جب بشیر بن یسار سے بیان کیا تو دیگر راویوں کے برعکس یہ کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدعیوں، یعنی حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمن کے دعویٰ کرنے پر ان سے فرمایا تھا: ”تم اپنے اس دعویٰ پر کہ ہمارے آدمی کو یہودیوں نے قتل کیا ہے، گواہ پیش کرو۔“ انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس گواہ نہیں ہیں۔ بعد ازاں آپ نے ان سے قسموں کی بات کی۔ اس کی تفصیل آئندہ روایت میں ملاحظہ کریں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4731
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4732
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4722
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت بشیر بن یسار نے بتایا کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود ؓ خیبر گئے اور اپنے اپنے کاموں میں ادھر ادھر ہوگئے تو عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے۔ محیصہ مدینہ منورہ آئے اور اپنے بھائی حویصہ اور (مقتول کے بھائی) عبدالرحمن بن سہل سمیت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے (مقتول عبداللہ کے) بھائی ہونے کی وجہ سے عبدالرحمن بات کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بڑے کو پہلے بات کرنے دو۔“ پھر حویصہ اور محیصہ نے آپ سے بات چیت کی اور عبداللہ بن سہل کا مسئلہ پیش کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تم پچاس قسمیں کھا کر اپنے مقتول کے خون یا اپنے قاتل کے مستحق بنتے ہو۔؟“ امام مالک رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید نے کہا: بشیر بن یسار نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے پاس (بیت المال) سے دیت ادا فرما دی۔ سعید بن عبید الطائی نے ان (بشیر بن یسار سے روایت کرنے والوں) کی مخالفت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس کی وضاحت یہ ہے کہ بشیر بن یسار سے بیان کرنے والے دیگر روائِ حدیث نے صرف قسمیں لینے کا ذکر کیا ہے گواہوں کا نہیں جبکہ سعید بن عبید طائی نے (حدیث: ۴۷۲۳ میں) جب بشیر بن یسار سے بیان کیا تو دیگر راویوں کے برعکس یہ کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مدعیوں، یعنی حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمن کے دعویٰ کرنے پر ان سے فرمایا تھا: ”تم اپنے اس دعویٰ پر کہ ہمارے آدمی کو یہودیوں نے قتل کیا ہے، گواہ پیش کرو۔“ انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس گواہ نہیں ہیں۔ بعد ازاں آپ نے ان سے قسموں کی بات کی۔ اس کی تفصیل آئندہ روایت میں ملاحظہ کریں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بشیر بن یسار بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل انصاری اور محیصہ بن مسعود ؓ خیبر کی طرف نکلے، پھر وہ اپنی ضرورتوں کے لیے الگ الگ ہو گئے اور عبداللہ بن سہل ؓ کا قتل ہو گیا، محیصہ ؓ آئے تو وہ اور ان کے بھائی حویصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے، عبدالرحمٰن ؓ مقتول کے بھائی ہونے کی وجہ سے بات کرنے لگے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو“، چنانچہ حویصہ اور محیصہ ؓ نے بات کی اور عبداللہ بن سہل کا واقعہ بیان کیا تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”کیا تم پچاس قسمیں کھاؤ گے کہ اپنے آدمی یا اپنے قاتل کے خون کے حقدار بنو؟۔“ مالک کہتے ہیں: یحییٰ نے کہا: بشیر نے یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کی۔ سعید بن طائی نے ان راویوں کے برعکس بیان کیا ہے۔۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : سعید بن طائی کی روایت میں مقتول کے اولیاء سے قسم کھانے کے بجائے گواہ پیش کرنے، پھر مدعی علیہم سے قسم کھلانے کا ذکر ہے۔ امام بخاری نے اسی روایت کو ترجیح دی ہے، (دیات ۲۲) بقول امام ابن حجر: بعض رواۃ نے گواہی کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور بعض نے کیا ہے، بس اتنی سی بات ہے، حقیقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے گواہی طلب کی اور گواہی نہ ہونے پر قسم کی بات کہی، اور جب مدعی یہ بھی نہیں پیش کر سکے تو مدعا علیہم سے قسم کی بات کی، اس بات کی تائید عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی اگلی روایت سے بھی ہو رہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that Sahl bin Abi Hathmah said: "Abdullah bin Sahl was found slain, and his brother, and two paternal uncles, Huwayysah and Huwayisaah, who were the paternal uncles of 'Abdullah bin Sahl, came to the Messenger of Allah (ﷺ). 'Abdur-Rahman started to speak, but the Messenger of Allah (ﷺ) said: "Let the elders speak first." They said: "O Messenger of Allah, we found 'Abdullah bin Sahl slain in one of the dry wells of Khaibar." The Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) said: "Whom do you suspect? They said: "We suspect the Jews." He said: "Will you swear fifty oaths saying that the Jews killed him?" They said: "How can we swear an oath about something that we did not see?" He said: "Then can the Jews swear fifty oaths declaring that they did not kill him?" They said:"How can we accept their oaths, when they are Mushrikun?" So the Messenger of Allah (ﷺ) paid the blood money himself. (Sahih) Malik narrated this in Mursal from.