باب: سہل کی اس حدیث کی روایت میں راویوں کے اختلاف الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Mentioning The Different Wordings In The Report Of Sahl)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4719.
حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا کہ میری قوم کے کچھ آدمی خیبر گئے۔ وہاں وہ الگ الگ ہو گئے۔ انھوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو مقتل پایا تو ان لوگوں سے، جن کے پاس اس کی لاش پائی گئی تھی، کہا: تم نے ہمارے آدمی کو قتل کیا ہے؟ انھوں نے کہا: ہم نے اسے قتل نہیں کیا اور نہ ہم اس کے قاتل کو جانتے ہیں۔ پھر وہ اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے نبی! ہم خیبر گئے تھے۔ وہاں ہم نے اپنے ایک آدمی کو مقتول پایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بڑے کو بات کرنے دو۔“ آپ نے ان سے فرمایا: ”تم اپنے مقتول کے قاتل کے بارے میں گواہی گواہ پیش کرو۔“ وہ کہنے لگے: ہمارے پاس تو کوئی گواہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر وہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے (اور بری ہو جائیں گے)۔“ وہ کہنے لگے: ہم تو یہودیوں کی قسم کا اعتبار نہیں کرتے۔ رسول اللہ ﷺ نے پسند نہ فرمایا کہ اس کا خون بلا معاوضہ رہے، لہٰذا آپ نے صدقے کے اونٹوں میں سے سو اونٹ دیت کے طور پر دے دیے۔ عمرو بن شعیب نے ان (حدیث بیان کرنے والے باقی تمام رواۃ) کی مخالفت کی ہے۔
تشریح:
(1) اس مخالفت کی وضاحت یہ ہے کہ یہ حدیث بیان کرنے والے باقی تمام راوی یہ بیان کرتے ہیں کہ مقتول عبداللہ بن سہل ہیں جوکہ محیصہ کے چچا زاد بھائی ہیں جبکہ عمرو بن شعیب کہتے ہیں (جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے) کہ مقتول محیصہ کا چھوٹا بیٹا ہے، یعنی عبداللہ بن سہل مقتول نہیں۔ دوسری مخالفت یہ ہے کہ دیگر تمام راویوں کے برعکس انھوں نے یہ روایت اپنے پردادا حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے جبکہ تمام رواۃ نے حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیان کی ہے۔ تیسری مخالفت یہ ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دیت یہودیوں پر تقسیم کر دی تھی اور ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے نصف دیت، یعنی پچاس اونٹ اپنے ذمے لیے تھے جبکہ تمام راوی کہتے ہیں کہ پوری کی پوری دیت، یعنی سو اونٹ اور اونٹنیاں رسول اللہ نے اپنی طرف سے (بیت المال سے ) ادا فرمائی تھی۔ اس حدیث میں بیان کی گئی تفصیل درست نہیں بلکہ جو تفصیل دیگر راویوں نے بیان کی ہے وہی درست اور صحیح ہے۔ اس روایت میں صحیح روایات اور بہت سے ثقہ راویوں کی مخالفت کی گئی ہے، اس لیے یہ روایت شاذ، یعنی ضعیف ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دوسری روایات محفوظ، یعنی صحیح ہیں۔ واللہ أعلم۔ (2) گواہی کا ذکر صرف سعید بن عبید طائی کی روایت میں ہے۔ دیگر رواۃ نے گواہی کا ذکر نہیں کیا۔ تفصیلی روایات، جو کہ بخاری ومسلم کی ہیں، میں یہی ذکر ہے کہ آپ نے پہلے مدعین سے قسمیں اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ ان کے انکار پر مدعی علیہم سے قسموں کا مطالبہ کیا۔ اس لحاظ سے گواہی کا ذکر سعید بن عبید طائی کا شذوذ معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے [خَالَفَھُمْ سَعِیْدُ بْنُ عُبَیْدِ نِ الطَّائِیُّ] سے امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد اسی طرف اشارہ کرنا ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4732
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4733
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4723
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا کہ میری قوم کے کچھ آدمی خیبر گئے۔ وہاں وہ الگ الگ ہو گئے۔ انھوں نے اپنے میں سے ایک شخص کو مقتل پایا تو ان لوگوں سے، جن کے پاس اس کی لاش پائی گئی تھی، کہا: تم نے ہمارے آدمی کو قتل کیا ہے؟ انھوں نے کہا: ہم نے اسے قتل نہیں کیا اور نہ ہم اس کے قاتل کو جانتے ہیں۔ پھر وہ اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے نبی! ہم خیبر گئے تھے۔ وہاں ہم نے اپنے ایک آدمی کو مقتول پایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بڑے کو بات کرنے دو۔“ آپ نے ان سے فرمایا: ”تم اپنے مقتول کے قاتل کے بارے میں گواہی گواہ پیش کرو۔“ وہ کہنے لگے: ہمارے پاس تو کوئی گواہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر وہ تمہارے سامنے قسمیں کھائیں گے (اور بری ہو جائیں گے)۔“ وہ کہنے لگے: ہم تو یہودیوں کی قسم کا اعتبار نہیں کرتے۔ رسول اللہ ﷺ نے پسند نہ فرمایا کہ اس کا خون بلا معاوضہ رہے، لہٰذا آپ نے صدقے کے اونٹوں میں سے سو اونٹ دیت کے طور پر دے دیے۔ عمرو بن شعیب نے ان (حدیث بیان کرنے والے باقی تمام رواۃ) کی مخالفت کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس مخالفت کی وضاحت یہ ہے کہ یہ حدیث بیان کرنے والے باقی تمام راوی یہ بیان کرتے ہیں کہ مقتول عبداللہ بن سہل ہیں جوکہ محیصہ کے چچا زاد بھائی ہیں جبکہ عمرو بن شعیب کہتے ہیں (جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے) کہ مقتول محیصہ کا چھوٹا بیٹا ہے، یعنی عبداللہ بن سہل مقتول نہیں۔ دوسری مخالفت یہ ہے کہ دیگر تمام راویوں کے برعکس انھوں نے یہ روایت اپنے پردادا حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے جبکہ تمام رواۃ نے حضرت سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیان کی ہے۔ تیسری مخالفت یہ ہے کہ یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دیت یہودیوں پر تقسیم کر دی تھی اور ان کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے نصف دیت، یعنی پچاس اونٹ اپنے ذمے لیے تھے جبکہ تمام راوی کہتے ہیں کہ پوری کی پوری دیت، یعنی سو اونٹ اور اونٹنیاں رسول اللہ نے اپنی طرف سے (بیت المال سے ) ادا فرمائی تھی۔ اس حدیث میں بیان کی گئی تفصیل درست نہیں بلکہ جو تفصیل دیگر راویوں نے بیان کی ہے وہی درست اور صحیح ہے۔ اس روایت میں صحیح روایات اور بہت سے ثقہ راویوں کی مخالفت کی گئی ہے، اس لیے یہ روایت شاذ، یعنی ضعیف ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دوسری روایات محفوظ، یعنی صحیح ہیں۔ واللہ أعلم۔ (2) گواہی کا ذکر صرف سعید بن عبید طائی کی روایت میں ہے۔ دیگر رواۃ نے گواہی کا ذکر نہیں کیا۔ تفصیلی روایات، جو کہ بخاری ومسلم کی ہیں، میں یہی ذکر ہے کہ آپ نے پہلے مدعین سے قسمیں اٹھانے کا مطالبہ کیا۔ ان کے انکار پر مدعی علیہم سے قسموں کا مطالبہ کیا۔ اس لحاظ سے گواہی کا ذکر سعید بن عبید طائی کا شذوذ معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے [خَالَفَھُمْ سَعِیْدُ بْنُ عُبَیْدِ نِ الطَّائِیُّ] سے امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد اسی طرف اشارہ کرنا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ سہل بن ابی حثمہ نامی ایک انصاری شخص نے ان سے بیان کیا کہ ان کے قبیلہ کے کچھ لوگ خیبر کی طرف چلے، پھر وہ الگ الگ ہو گئے، تو انہیں اپنا ایک آدمی مرا ہوا ملا، انہوں نے ان لوگوں سے جن کے پاس مقتول کو پایا، کہا: ہمارے آدمی کو تم نے قتل کیا ہے، انہوں نے کہا: نہ تو ہم نے قتل کیا ہے اور نہ ہمیں قاتل کا پتا ہے، تو وہ لوگ نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے اور عرض کیا: اللہ کے نبی! ہم خیبر گئے تھے، وہاں ہم نے اپنا ایک آدمی مقتول پایا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بڑوں کا لحاظ کرو، بڑوں کا لحاظ کرو“ ۱؎ پھر آپ نے ان سے فرمایا: ”تمہیں قاتل کے خلاف گواہ پیش کرنا ہو گا“، وہ بولے: ہمارے پاس گواہ تو نہیں ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”تو وہ قسم کھائیں گے“، وہ بولے: ہمیں یہودیوں کی قسمیں منظور نہیں، پھر رسول اللہ ﷺ کو گراں گزرا کہ ان کا خون بیکار جائے، تو آپ نے انہیں صدقے کے سو اونٹ کی دیت ادا کی۔ (ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں:) عمرو بن شعیب نے ان (یعنی اوپر مذکور رواۃ) کی مخالفت کی ہے۔ ۲؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یہاں پر یہ ذکر نہیں ہے کہ عمر میں چھوٹے آدمی (عبدالرحمٰن مقتول کے بھائی) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات شروع کی تو آپ نے ادب سکھایا کہ بڑوں کو بات کرنی چاہیئے اور چھوٹوں کو خاموش رہنا چاہیئے۔ ملاحظہ ہو: سابقہ احادیث۔ ۲؎ : عمرو بن شعیب نے اپنی روایت میں عبداللہ بن سہل کے بجائے ابن محیصہ الاصغر کو مقتول کہا ہے، اور یہ کہا ہے کہ مدعیان سے شہادت طلب کرنے کے بعد اسے نہ پیش کر پانے کی صورت میں ان سے قسم کھانے کو کہا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from Bushair bin Yasar that: 'Abdullah bin Sahl Al-Ansari and Muhayysah bin Mas'ud went out to Khaibar, where they went their separate ways to go about their business. 'Abdullah bin Sahl was killed, and Muhayysah came (to Madinah) and went with his brother Huwayysah and 'Abdur-Rahman bin Sahl to the Messenger of Allah (ﷺ). 'Abdur-Rahaman started to speak, because of his position as brother (of the slain man) but the Messenger of Allah (ﷺ) said: "Let the elders speak first." So Huyysah and Muhayysah spoken, and told him about what happened to 'Abdullah bin Sahl. The Messenger of Allah (ﷺ) said to them: "Will you sewer fifty oaths, then you will receive compensation or be entitled to retaliate?" (In his narration) Malik said: "Yahya said: 'Bushair said that the Messenger of Allah (ﷺ) paid the blood money himself, but Sa'eed bin 'Ubaid At-Ta'l disagreed with them (in reporting that).