Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Retaliation If A Man Kills A Woman)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4742.
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک لڑکی گھر سے نکلی۔ اس کے کانوں میں بالیاں تھیں۔ ایک یہودی نے اسے پکڑ لیا اس کا سر کچلا اور زیورات اتار کر لے گیا۔ جب اس لڑکی کو دیکھا گیا تو اس میں کچھ جان باقی تھی۔ اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ نے اس سے پوچھا: ”تجھے کس نے مارا ہے؟ کیا فلاں نے؟“ اس نے سر سے اشارہ کیا، نہیں۔ فرمایا: ”فلاں نے؟“ حتیٰ کہ آپ نے اس یہودی کا نام لیا تو اس نے سر کے اشارے سے ہاں کہا۔ اس یہودی کو پکڑ کر لایا گیا۔ آخر اس نے تسلیم کرلیا تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا اور اس کا سر بھی اسی طرح دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4755
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4756
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4746
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک لڑکی گھر سے نکلی۔ اس کے کانوں میں بالیاں تھیں۔ ایک یہودی نے اسے پکڑ لیا اس کا سر کچلا اور زیورات اتار کر لے گیا۔ جب اس لڑکی کو دیکھا گیا تو اس میں کچھ جان باقی تھی۔ اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا تو آپ نے اس سے پوچھا: ”تجھے کس نے مارا ہے؟ کیا فلاں نے؟“ اس نے سر سے اشارہ کیا، نہیں۔ فرمایا: ”فلاں نے؟“ حتیٰ کہ آپ نے اس یہودی کا نام لیا تو اس نے سر کے اشارے سے ہاں کہا۔ اس یہودی کو پکڑ کر لایا گیا۔ آخر اس نے تسلیم کرلیا تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا اور اس کا سر بھی اسی طرح دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ ایک لڑکی نکلی وہ زیور ہار پہنے ہوئے تھی، ایک یہودی نے اسے پکڑا اور اس کا سر کچل دیا اور جو زیور وہ پہنے ہوئے تھی اسے لے لیا، پھر وہ پائی گئی، اس کی سانس چل رہی تھی، اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لایا گیا، تو آپ نے پوچھا: ”تمہیں کس نے قتل کیا؟“ کیا فلاں نے؟ اس نے اپنے سر کے اشارے سے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا فلاں نے؟“ یہاں تک کہ اس یہودی کا نام آیا، اس نے سر کے اشارے سے کہا: ہاں، تو اسے گرفتار کیا گیا، اس نے اقبال جرم کر لیا، رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا اور دو پتھروں کے درمیان اس کا سر کچل دیا گیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated that ''Anas bin Malik (RA) said: "A girl went out wearing some jewelry and a Jew caught her, crushed her head between two rocks and took the jewelry that she was wearing. She was found as she was breathing her last, and she was brought to the Messenger of Allah (ﷺ) who said: 'Who killed you? Was it so and so?' She gestured no with her head, and he continued asking until he named the Jew, and she gestured yes with her head. He was caught and he confessed (to his crime), then the Messenger of Allah (ﷺ) ordered that his head be crushed between two rocks.