Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: Seriousness Of Killing The One With A Covenant (Al-Mu'ahad)1)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4747.
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص کسی ذمی کو ناحق قتل کرے، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام فرما دی ہے۔“
تشریح:
”جنت حرام“ یعنی اس شخص پر جنت میں پہلے پہل داخلہ حرام ہے کیونکہ یہ ایسا جرم ہے جس کی سزا ضرور ملے گی، لہٰذا وہ اولین طور پر جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ کبھی جنت میں نہیں جائے گا کیونکہ یہ بات تو کسی مومن کو قتل کرنے کی صورت میں بھی نہیں کہی جا سکتی۔ شریعت کی واضح نصوص صراحتاً دلالت کرتی ہیں کہ کسی بھی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہمیشہ کے لیے جہنمی نہیں ہوگا، آخر کار وہ جنت میں ضرور جائے گا بشرطیکہ وہ کلمہ گو اور موحد ہو۔ قتل بھی گناہ کبیرہ ہی ہے۔ تفصیلی بحث حدیث نمبر ۴۰۰۴ میں گزر چکی ہے۔ (ذمی کے قتل کی بحث کے لیے دیکھیے، فوائد ومسائل حدیث: ۴۷۳۸)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4760
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4761
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4751
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص کسی ذمی کو ناحق قتل کرے، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام فرما دی ہے۔“
حدیث حاشیہ:
”جنت حرام“ یعنی اس شخص پر جنت میں پہلے پہل داخلہ حرام ہے کیونکہ یہ ایسا جرم ہے جس کی سزا ضرور ملے گی، لہٰذا وہ اولین طور پر جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ کبھی جنت میں نہیں جائے گا کیونکہ یہ بات تو کسی مومن کو قتل کرنے کی صورت میں بھی نہیں کہی جا سکتی۔ شریعت کی واضح نصوص صراحتاً دلالت کرتی ہیں کہ کسی بھی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہمیشہ کے لیے جہنمی نہیں ہوگا، آخر کار وہ جنت میں ضرور جائے گا بشرطیکہ وہ کلمہ گو اور موحد ہو۔ قتل بھی گناہ کبیرہ ہی ہے۔ تفصیلی بحث حدیث نمبر ۴۰۰۴ میں گزر چکی ہے۔ (ذمی کے قتل کی بحث کے لیے دیکھیے، فوائد ومسائل حدیث: ۴۷۳۸)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوبکرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کسی ذمی کو بلا وجہ قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جنت حرام کر دی ہے۔“ ۱؎
حدیث حاشیہ:
۱؎ : یعنی اسے «دخول اولیں» نصیب نہیں ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Bakrah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Whoever kills a Mu'ahad with no justification, Allah will forbid Paradise to him.