باب: قتل شبہ عمد کا بیان اور اس کا کہ پیٹ کے بچے اور قتل شبہ عمد کی دیت کس کے ذمے ہوگی؟ نیز ابراہیم عن عبید بن نضیہ کے حضرت مغیرہ سے مروی روایت پر راویوں کے اختلافِ الفاظ کا ذکر
)
Sunan-nasai:
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
(Chapter: The Description Of Killing That Resembles Intentional Killing, And Who Is To Pay The Diyah For A Fetus And For A Killing That Resembles Intentional Killing, And Mentioning The Different Wordings Reported In The Narration Of Ibrahim From 'Ubaid Bi)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ حافظ محمّد أمين (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4830.
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص ایسے ہی (تکلفاً) طبیب بن کر علاج کرے، حالانکہ (اس سے قبل) وہ مستند طبیب نہیں تھا تو (اگر کوئی نقصان ہو جائے) وہ ضامن (ذمہ دار) ہوگا۔“
تشریح:
(1) محقق کتاب نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے۔ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: [لکن الحدیث حسن بمجموع الطریقین] یعنی دونوں طریق کی وجہ سے مجموعی طور پر مذکورہ حدیث حسن بن جاتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: ۶۳۵) (2) موجودہ دور میں عطائی قسم کے ڈاکٹر اور طبیب عام ہیں۔ ان طبیبوں اور ڈاکٹروں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ حکومت وقت کی یہ شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی قانون سازی کرے کہ کوئی اناڑی ڈاکٹر اور طبیب لوگوں کی زندگی اور ان کی صحت سے نہ کھیل سکے۔ عوام کو ایسے لوگوں کی دست برد سے بچنے کی خود بھی کوشش کرنی چاہیے۔ ایسے ڈاکٹروں اور طبیبوں کے ہاتھوں اگر کوئی مر جائے تو ان کے ذمے دیت ہوگی، تاہم مستند معالجین سے دوا لینا شرعاً جائز بلکہ مستحب ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے علاج معالجے اور دوا کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ ڈاکٹر وطبیب مستند اور معروف ہو۔ (3) اگر کوئی آدمی کسی ڈاکٹر یا طبیب کی بے پروائی یا عدم مہارت کی وجہ سے مر جائے تو اس پر دیت ہوگی جو اس کے نسبی رشتہ دار ادا کریں گے۔ قصاص نہیں ہوگا کیونکہ وہ مکمل طور پر قصور وار نہیں۔ آخر علاج کروانے والے کی رضا مندی ہی سے اس کا علاج ہوا، لہٰذا اناڑی شخص سے علاج کروانے میں متعلقہ شخص بھی مجرم ہے۔ طبیب اکیلا مجرم نہیں۔ (4) مستند طبیب سے کوئی نقصان ہو جائے تو جب تک اس کی صریح غلطی ثابت نہ ہو جائے، وہ ذمہ دار نہیں ہوگا۔ صریح غلطی کی صورت میں اسے دیت بھرنی ہوگی کیونکہ یہ بھی خطا کی ذیل میں آتا ہے۔ اگر ثابت ہو جائے کہ طبیب نے عمداً نقصان پہنچایا ہے تو قصاص جاری ہوگا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4844
٧
ترقيم دار المعرفة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار المعرفہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
4845
٨
ترقيم أبي غدّة (دار السلام)
ترقیم ابو غدہ (دار السلام)
4834
تمہید کتاب
٭ تعریف: ’’قسامہ‘‘ اسم مصدر ہے جس کے معنی قسم اٹھانے کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر قسامت ان مکرر (پچاس) قسموں کو کہا جاتا ہے جو کسی بے گناہ شخص کے قتل کے اثبات کے لیے دی جائیں۔ اور یہ قسمیں ایک شخص نہیں بلکہ متعدد افراد اٹھائیں گے۔٭ مشروعت: جب کوئی شخص کسی علاقے میں مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چلے لیکن کوئی شخص یا قبیلہ متہم ہو تو ایسی صورت میں قسامت مشروع ہے۔ یہ شریعت کا ایک مستقل اصول ہے اور اس کے باقاعدہ احکام ہیں۔ قسم وقضا کے دیگر احکام سے اس کا حکم خاص ہے۔ اس کی مشروعیت کی دلیل اس باب میں مذکور روایات اور اجماع ہے۔٭ شرائط: اہل علم کے اس بارے میں کئی اقوال ہیں، تاہم تین شرائط کا پایا جانا متفقہ طور پر ضروری ہے: (۱) جن کے خلاف قتل کا دعویٰ کیا گیا ہو غالب گمان یہ ہے کہ انھوں نے قتل کیا ہے۔ اور یہ چار طرح سے ممکن ہے۔ کوئی شخص قتل کی گواہی دے جس کی گواہی کا اعتبار نہ کیا جاتا ہو، واضح سبب موجود ہو، دشمنی ہو یا پھر جس علاقے میں مقتول پایا جائے اس علاقے والے قتل کرنے میں معروف ہوں۔ (2) جس کے خلاف دعویٰ دائر کیا گیا ہو وہ مکلف ہو، کسی دیوانے یا بچے کے بارے میں دعوے کا اعتبار نہیں ہوگا۔ (3)جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہو اس کے قتل کرنے کا امکان بھی ہو، اگر یہ امکان نہ ہو، مثلاً: جن کے خلاف دعویٰ کیا گیا، وہ بہت زیادہ دور ہیں، تو پھر قسامت کے احکام لاگو نہیں ہوں گے۔٭ قسامت کا طریق کار: عمومی قضا میں طریقہ یہ ہوتا ہے کہ مدعی دلیل پیش کرتا ہے۔ اگر وہ دلیل پیش نہ کر سکے تو مدعی ٰ علیہ قسم اٹھا کر اپنے بریٔ الذمہ ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن قسامت میں حاکم وقت مدعی سے پچاس قسموں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر وہ قسمیں اٹھا لیں تو قصاص یا دیت کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔ اور اگر نہ اٹھائیں تو پھر مدعی ٰ علیہ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس کے پچاس قریبی یا متہم قبیلے کے پچاس افراد قسمیں اٹھا کر اپنی براء ت کا اظہار کریں کہ انھوں نے قتل کیا ہے نہ انہیں اس کا علم ہی ہے اگر وہ قسمیں اٹھائیں تو ان سے قصاص یا دیت ساقط ہو جائے گی۔حنابلہ، مالکیہ اور شوافع کا یہی موقف ہے، البتہ احناف کا موقف یہ ہے کہ قسامت میں بھی قسمیں لینے کا آغاز مدعیٰ علیہ فریق سے کیا جائے۔ اس اختلاف کی وجہ روایات کا بظاہر تعارض ہے، تاہم دلائل کے اعتبار سے ائمہ ثلاثہ کا موقف ہی اقرب الی الصواب ہے۔٭ ملاحظہ: مدعی فریق اگر قسمیں اٹھا لے تو پھر مدعی علیہ فریق سے قسموں کا مطالبہ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے قصاص یا دیت لی جائے گی۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مدعی فریق قسم نہ اٹھائے اور مدعی علیہ فریق قسم اٹھا لے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا۔ اس صورت میں مدعی فریق کو کچھ نہیں ملے گا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مدعی علیہ فریق قسمیں کھانے کے لیے تیار ہے لیکن مدعی فریق ان کی قسموں کا (ان کے کافر یا فاسق ہونے کی وجہ سے) اعتبار نہیں کرتا۔ اس صورت میں بھی مدعی علیہ فریق پر قصاص اور دیت نہیں ہوگی، تاہم اس صورت میں بہتر ہے کہ حکومت بیت المال سے مقتول کی دیت ادا کر دے تاکہ مسلمان کا خون رائیگاں نہ جائے۔
حضرت عمرو بن شعیب کے پردادا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص ایسے ہی (تکلفاً) طبیب بن کر علاج کرے، حالانکہ (اس سے قبل) وہ مستند طبیب نہیں تھا تو (اگر کوئی نقصان ہو جائے) وہ ضامن (ذمہ دار) ہوگا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) محقق کتاب نے اس روایت کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے۔ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ مذکورہ حدیث پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں: [لکن الحدیث حسن بمجموع الطریقین] یعنی دونوں طریق کی وجہ سے مجموعی طور پر مذکورہ حدیث حسن بن جاتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث: ۶۳۵) (2) موجودہ دور میں عطائی قسم کے ڈاکٹر اور طبیب عام ہیں۔ ان طبیبوں اور ڈاکٹروں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ حکومت وقت کی یہ شرعی اور اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی قانون سازی کرے کہ کوئی اناڑی ڈاکٹر اور طبیب لوگوں کی زندگی اور ان کی صحت سے نہ کھیل سکے۔ عوام کو ایسے لوگوں کی دست برد سے بچنے کی خود بھی کوشش کرنی چاہیے۔ ایسے ڈاکٹروں اور طبیبوں کے ہاتھوں اگر کوئی مر جائے تو ان کے ذمے دیت ہوگی، تاہم مستند معالجین سے دوا لینا شرعاً جائز بلکہ مستحب ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے علاج معالجے اور دوا کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ ڈاکٹر وطبیب مستند اور معروف ہو۔ (3) اگر کوئی آدمی کسی ڈاکٹر یا طبیب کی بے پروائی یا عدم مہارت کی وجہ سے مر جائے تو اس پر دیت ہوگی جو اس کے نسبی رشتہ دار ادا کریں گے۔ قصاص نہیں ہوگا کیونکہ وہ مکمل طور پر قصور وار نہیں۔ آخر علاج کروانے والے کی رضا مندی ہی سے اس کا علاج ہوا، لہٰذا اناڑی شخص سے علاج کروانے میں متعلقہ شخص بھی مجرم ہے۔ طبیب اکیلا مجرم نہیں۔ (4) مستند طبیب سے کوئی نقصان ہو جائے تو جب تک اس کی صریح غلطی ثابت نہ ہو جائے، وہ ذمہ دار نہیں ہوگا۔ صریح غلطی کی صورت میں اسے دیت بھرنی ہوگی کیونکہ یہ بھی خطا کی ذیل میں آتا ہے۔ اگر ثابت ہو جائے کہ طبیب نے عمداً نقصان پہنچایا ہے تو قصاص جاری ہوگا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو علاج معالجہ کرے، اور اس سے پہلے اس کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ طبیب ہے، تو (کسی گڑبڑی کے وقت) وہ ضامن ہو گا۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was narrated from'Amrbin shu'aib, from his father that his grandfather said: "the Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Whoever practices medicine when he is not known for that, he is liable.(Daif)