قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

جامع الترمذي: أَبْوَابُ الْأَحْكَامِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (بَابُ مَا جَاءَ إِذَا حُدَّتِ الْحُدُودُ وَوَقَعَتِ السِّهَامُ فَلاَ شُفْعَةَ​)

حکم : صحیح 

1370. حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَقَعَتْ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتْ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ مُرْسَلًا عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَبِهِ يَقُولُ بَعْضُ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ مِثْلَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَغَيْرِهِ وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مِنْهُمْ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ وَرَبِيعَةُ بْنُ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَقُ لَا يَرَوْنَ الشُّفْعَةَ إِلَّا لِلْخَلِيطِ وَلَا يَرَوْنَ لِلْجَارِ شُفْعَةً إِذَا لَمْ يَكُنْ خَلِيطًا وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ الشُّفْعَةُ لِلْجَارِ وَاحْتَجُّوا بِالْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ جَارُ الدَّارِ أَحَقُّ بِالدَّارِ وَقَالَ الْجَارُ أَحَقُّ بِسَقَبِهِ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ

مترجم:

1370.

جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب حد بندی ہوجائے اور راستے الگ الگ کردیے جائیں تو شفعہ نہیں‘‘ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۲۔ اسے بعض لوگوں نے ابوسلمہ سے اورانہوں نے نبی اکرم ﷺ سے مرسلاً روایت کیا ہے۔
۳۔ صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا جن میں عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان بھی شامل ہیں اسی پرعمل ہے اور بعض تابعین فقہا جیسے عمر بن عبدالعزیز وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ اوریہی اہل مدینہ کا بھی قول ہے، جن میں یحییٰ بن سعید انصاری، ربیعہ بن ابوعبدالرحمن اور مالک بن انس شامل ہیں، شافعی، احمد اوراسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں، یہ لوگ صرف ساجھی دار کے لیے ہی حق شفعہ کے قائل ہیں۔ اور جب پڑورسی ساجھی دار نہ ہو تو اس کے لیے حق شفعہ کے قائل نہیں۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ پڑوسی کے لیے بھی شفعہ ہے اور ان لوگوں نے مرفوع حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں: ’’گھر کا پڑوسی گھر کا زیادہ حق دار ہے ۲؎‘‘، نیز فرماتے ہیں:' پڑوسی اپنے سے لگی ہوئی زمین یا مکان کا زیادہ حق دارہے اوریہی ثوری، ابن مبارک اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔