اردو حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1) نماز کی صحت کےلئے وضو شرط ہے۔ اس لئے وضو توجہ اوراحتیاط سے کرنا چاہیے۔ تاکہ ا س میں کوئی نقص نہ رہ جائے۔
(2) نماز کے لئے قبلہ رخ ہونا شرط ہے البتہ نفلی نماز سواری پر ادا کرتے وقت سواری کا رخ جدھر بھی ہو نماز جاری رکھی جائے۔(صحیح البخاري، التقصیر، باب صلاۃ التطوع علی الدواب وحیثما توجھت، حدیث:1093۔ وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب جواز صلاۃ النافلة علی الدابة فی السفر حیث توجھت، حدیث:700) البتہ یہ ضروری ہے کہ نمازشروع کرتے وقت سواری کا رخ قبلے کی طرف ہو۔جیسا کہ سنن ابو داؤد کی روایت میں صراحت ہے۔ (سنن ابی داؤد، صلاۃ السفر، باب التطوع علی الراحلة والوتر، حدیث:1225)
(3) نماز کی ابتداء تکبیر سے ہوتی ہے۔ جیسے کہ سنن ابن ماجہ کی حدیث 275 میں ذکر ہوا۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ نماز میں پابندیاں لگانے والی ہر چیز تکبیر ہے۔ اور پابندیاں ختم کرنے والی چیز سلام ہے۔
(4) ’’قرآن میں سے جو آسان ہو۔‘‘ اس سے مراد سورۃ فاتحہ ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ یا اس سے مراد سورہ فاتحہ کے بعد کی تلاوت ہے۔ کہ اس میں کم زیادہ کی کوئی حد مقرر نہیں۔ سورہ فاتحہ کا وجوب دوسرے دلائل سے ثابت ہے۔ ارشاد نبوی ہے۔ (لَاصَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَاْ بِفَاتِحَة ِالْكِتَابِ) (صحيح البخاري، الأذان، باب وجوب القراءۃ للإمام والمأموم فی الصلوات کلھا۔۔۔، حدیث:756 وصحیح مسلم، الصلاۃ، باب وجوب قراءۃ ا لفاتحة فی کل ر کعة۔۔۔، حدیث:394) ’’جس شخص نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں۔‘‘ علاوہ ازیں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ ’’جب میں بلند آواز سے قراءت کروں توسورۃ فاتحہ کے سواقرآن میں سے کچھ نہ پڑھو‘‘ (سنن ابی داؤد، الصلاۃ، باب من ترک القراءۃ فی صلاته بفاتحة الکتاب، حدیث: 823)
(5) رکوع اور سجدے کے دیگر مسائل گزشتہ ابواب میں بیان ہوچکے ہیں۔
(6) اس حدیث میں اہم مسئلہ جسے پوری تاکید سے واضح کیاگیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ نماز کے ارکان پورے اطمینان سے ادا کرنے ضروری ہیں۔ جلدی جلدی پڑھی ہوئی نماز اللہ کےہاں قبول نہیں۔ کیونکہ نماز کا اصل مقصد ہی اللہ کا ذکر ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي﴾ (طٰهٰ :14) ’’میری یاد کےلئے نماز قائم کیجئے۔‘‘
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه وكذا أبو عوانة
في "صحاحهم ". وقال الترمذي: " حديث حسن صحيح ". لكن ليس عندهم
- غير أبي عوانة-: " فإذا فعلت... " إلى قوله: " من صلاتك "
إسناده: حدثنا القعنبي: حدثنا أنس بن عياض. (ح) وثنا ابن المثنى: حدثني يحيى بن سعيد عن عبيد الله- وهذا لفظ ابن المثنى-: حدثني سعيد بن
أبي سعيد عن أبيه عن أبي هريرة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين.
والحديث أخرجه أبو عوانة في "صحيحه " (2/103) من طريق المصنف.
وأخرجه مسلم (2/10- 11) ، والنسائي (1/141) : أخبرنا محمد بن المثنى... به.
وأخرجه أحمد (2/437) : ثنا يحيى... به.
وأخرجه البخاري (2/126 و 131) ، وأبو عوانة، والترمذي (2/103/303) ،
والبيهقي (2/37 و 88 و 117 و 122) من طرق عن يحيى... به.
وقد خالفه أنس بن عياض فقال: عن سعيد بن أبي سعيد عن أبي هريرة؛ لم
يقل: عن أبيه؛ كما أخرجه المصنف-
وتابعه عبد الله بن نمير: حدثنا عبيد الله... به.
أخرجه البخاري (8/47) ، ومسلم، وابن ماجه (1/327) ، والبيهقي
(2/15) .
وكذلك تابعه أبو أسامة: حدثنا عبيد الله بن عمر... به.
أخرجه البخاري (8/115) ، ومسلم، والبيهقي (2/15) .
وتابعه عيسى بن يونس عن عبيد الله بن عمر... به.
أخرجه أبو عوانة. وقال الترمذي:
" حديث حسن صحيح. وقد روى ابن نمير هذا الحديث عن عبيد الله بن عمر
عن سعيد المقبري عن أبي هريرة؛ ولم يذكر فيه. عن أبيه. عن أبي هريرة. ورواية
يحيى بن سعيد عن عبيد الله بن عمرأصح. وسعيد المقبري قد سمع من أبي
هريرة، وروى عن أبيه عن أبي هريرة "!
كذا قال! أن رواية يحيى أصح، وقد علمت من تخريجنا أن ابن نمير قد تابعه
أنس بن عياض وأبو أسامة وعيسى بن يونس كل هؤلاء لم يذكروا: عن أبيه.
فاتفاقهم على ذلك يرجح رواية ابن نمير. والله أعلم.
وهما رواية محمد بن بشار: حدثنا يحيى بن سعيد... به؛ دون: عن أبيه.
أخرجه ابن حبان (1887) .
الإرواء (289)