تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) عبد اللہ بن ابی منافقوں کا سردار تھا۔ جو زندگی بھر مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتا رہا۔ اور مسلمان کہلانے کے باوجود رسول اللہ ﷺ کو مختلف انداز میں تکلیفیں پہنچاتا رہا۔ لیکن اس کا بیٹا سچا مسلمان تھا۔اس کا نام بھی عبد اللہ تھا۔
(2) رسول اللہ ﷺ نے عبد للہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دلجوئی کےلئے ان کے منافق باپ عبد اللہ بن ابی کو پہنانے کے لئے اپنی قمیص عطا فرمائی۔
(3) کفن کے کپڑے بن سلے ہوتی ہیں۔ لیکن اگر کوئی خاص صورت حال پیش آ جائے تو سلا ہوا کپڑا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
(4) رسول اللہ ﷺ کو معلوم تھا کہ اس منافق کی بخشش نہیں ہوگی۔ اس کے باوجود نبی کریمﷺنے اس کےلئے دعا کرنے کا ارادہ فرمایا۔ کیونکہ اللہ سے دعا کرنا ایک نیکی ہے۔ اس کے لئے قبولیت شرط نہیں۔
(5) نفاق ایک قلبی کیفیت ہے۔ جسے اللہ ہی جانتا ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ نے نہیں بتایا رسول اللہﷺ کو بھی یقینی علم نہیں ہوا۔ جیسے کہ ارشاد ہے۔ ﴿وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ﴾ (التوبة:101) مدینے والوں میں سے کچھ ایسے (منافق) ہیں جو نفاق پر اڑے ہوئے ہیں۔ آپ ﷺ ان کو نہیں جانتے ہم جانتے ہیں۔ بعد میں نبی اکرمﷺ کو بتا دیا گیا۔اور حکم دیا گیا کہ ان کی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔
(6) ہم ظاہر کے مطابق عمل کے مکلف ہیں جو شخص لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ﷺ کا اقرار کرتا ہے۔ اسے مسلمان سمجھا جائےگا۔ جب تک وہ کوئی ایسا کام نہ کرے۔ جس سے اس کا کافر ہونا ظاہرہو جائے۔ اس لئے جب تک کسی کا کفر ثابت نہ ہوجائے۔ اس کے مرنے پر اس کا جنازہ پڑھا جائےگا۔ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائےگا۔ اس کے مسلمان رشتہ دار اس کے وارث ہوں گے۔ جب کہ غیر مسلم یا مرتد کے احکام اس کے برعکس ہوں گے۔
(7) اگر دل میں ایمان نہ ہوتو کسی برکت والی چیز کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے ظاہری اشیاء سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کے بجائے دل کی اصلاح ضروری ہے۔
(8) جس کا کفر معلوم ہو۔ اس کے حق میں دعائے مغفرت جائز نہیں۔ مثلاً کوئی عیسائی، ہندو یا قادیانی ہمسایہ یا رشتہ دار ہو تو اس کی وفات پر جس طرح اس کا جنازہ نہیں پڑھا جاتا۔ اس کے حق میں دعا کرنا بھی درست نہیں۔ دیکھئے: (التوبة:113)