تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) کسی عزیز یا دوست کی وفات پر رونا جائز ہے۔ بشر ط یہ کہ جاہلیت کا انداز اختیار نہ کیاجائے۔
(2) دوسرے افراد کو چاہیے کہ فوت ہونے والے کے اقارب کو مناسب انداز سے تسلی دیں۔ جس سے ان کے غم میں تخفیف ہو۔
(3) حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی مرضی یہی تھی۔ اب اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے یہ ادب کے دائرے میں رہ کر صبر کی تلقین ہے۔
(4) اصل صبر یہ ہے کہ غم کے وقت بھی اپنی زبان اور ہاتھ وغیرہ کو ناجائز امور سے محفوظ رکھا جائے۔ ایسے الفاظ نہ کہے جایئں جن سے اللہ پر ناراضی کا اظہار ہوتا ہو۔
(5) اللہ کے رسول ﷺ نے وفات سے ہونے والے غم کے سلسلے میں ایک اہم اصولی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وہ یہ کہ موت کا وعدہ سچا ہے۔ اس سے کسی کو مفر نہیں اگر فوت ہونے والا آج نہ جاتا تو کل چلا جاتا۔ آخر جانا ہی تھا۔ اور دوسری بات یہ کہ موت سے حاصل ہونے والی جدائی ایک عارضی جدائی ہے۔ اگر ایک فرد ہم سے پہلے فوت ہوکر ہم سے جدا ہوگیا ہے تو پیچھے رہنے والے کو بھی فوت ہوکر وہیں پہنچنا ہے۔ پھر یہ جدائی ختم ہوجائے گی اور اس کے بعد جدائی نہیں ہوگی۔ اگر ان دو امو ر کی طرف توجہ کی جائے تو موت کا غم یقیناً ہلکا ہوجاتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في " السلسلة الصحيحة " 4 / 310 :
أخرجه ابن سعد في " الطبقات " ( 1 / 142 ) عن عاصم بن عمر بن قتادة عن محمود ابن لبيد قال : انكسفت الشمس يوم مات إبراهيم بن رسول الله صلى الله عليه وسلم ... و دمعت عيناه فقالوا : يا رسول الله تبكي و أنت رسول الله قال ... فذكره .
قلت : و هذا إسناد صحيح رجاله كلهم ثقات ، و محمود بن لبيد صحابي صغير . و له شاهد من حديث شهر بن حوشب عن أسماء بنت يزيد قالت : لما توفى ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم إبراهيم بكى رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فقال له المعزي ، أبو بكر أو عمر : أنت أحق من عظم الله حقه : فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم
: " تدمع العين و يحزن القلب و لا نقول ما يسخط الرب ، لولا أنه وعد صادق و موعود جامع و أن الآخر تابع للأول لوجدنا عليك يا إبراهيم أفضل مما وجدنا و إنا بك لمحزونون " . أخرجه ابن ماجة ( 1589 ) و ابن سعد ( 1 / 143 ) . و هذا إسناد حسن في الشواهد ، و قد حسنه البوصيري . و له شواهد أخرى عند ابن سعد ( 1
/ 136 - 140 ) منها عن أنس بن مالك و هو في الصحيحين " ، و قد خرجته في " فقه
السيرة للأستاذ الغزالي " ( ص 484 ) .