تشریح:
(1) یہ روایت بعض دوسرے محققین کے نزدیک صحیح ہے۔
(2) علماء کو مسجد میں علم سکھانے کے لیے بیٹھنا چاہیے یا ایسی جگہ علمی مجلس منعقد کرنی چاہیے جہاں کسی کو ان کے پاس آنے سے رکاوٹ نہ ہو اور ہر امیر و غریب، ادنیٰ واعلیٰ مستفید ہو سکے۔
(3) کسی بڑے عالم سے علم حاصل کرنے کے لیے ایک شہر سے دوسرے شہر جانا بہت اچھا کام ہے۔
(4) حصول علم کے لیے سفر کرنے والے سے اللہ کی ہر مخلوق خوش ہوتی اور اسے دعائیں دیتی ہے۔
(5) بالواسطہ سنی ہوئی حدیث کو بڑے عالم سے براہ راست سننے کی کوشش کرنا مستحب ہے، اسے محدثین کی اصطلاح میں عالی سند کا حصول کہتے ہیں۔
(6) استاد کو چاہیے کہ طالب علم کو علم کی اہمیت اور فضیلت سے باخبر کرے تاکہ اسے خوشی ہو اور شوق میں اضافہ ہو اور اس طرح وہ بہتر استفادہ کر سکے۔
(7) عالم، عبادت گزار سے افضل ہے کیونکہ عالم دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے جب کہ عابد صرف اپنے لیے کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ عبادت کے لیے بھی علم کی ضرورت ہے ورنہ بدعات میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے جس سے بجائے اللہ کی رضا حاصل ہونے کے اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے۔
(8) علماء کا یہ بہت بڑا شرف ہے کہ وہ نبیوں کے روحانی وارث ہیں۔ لیکن یہ بلند مقام ان پر اتنی ہی بڑی ذمہ داری بھی عائد کرتا ہے کہ وہ حق واضح کریں، حق کی طرف بلائیں، باطل سے منع کریں، اور اس راہ میں کسی خوف یا لالچ کو خاطر میں نہ لائیں، جس طرح انبیائے کرام نے اس علم کی تبلیغ میں جدوجہد، صبر، اخلاص اور للہیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔
(9) انبیائے کرام کا مالی ترکہ دوسرے لوگوں کی طرح وارثوں پر تقسیم نہیں ہوتا بلکہ وہ عام مسلمانوں پر صدقہ ہوتا ہے۔
(10) انبیاء کی میراث سے حصہ لینے کا دروازہ بند نہیں ہوا، ہر شخص اپنی محنت کے مطابق اس علمی میراث میں سے حصہ لے سکتا ہے کیونکہ یہ میراث نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس مقدس میراث میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرے۔
(11) عام طور پر کہا جاتا ہے کہ فرشتے طالب علم کے قدموں کے نیچے اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔ حدیث کے الفاظ سے یہ مفہوم نہیں نکلتا۔ وضع کا لفظ رفع کے مقابلے میں ہے، اس کے لیے اس کے معنی پروں کا جھکانا بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ ’’قدموں‘‘ کا لفظ حدیث میں نہیں۔ فرشتوں کا پروں کو جھکانا محبت اور احترام کا اظہار ہے۔واللہ أعلم.