قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن ابن ماجه: كِتَابُ الدِّيَاتِ (بَابُ هَلْ لِقَاتِلِ مُؤْمِنٍ تَوْبَةٌ)

حکم : صحيح، دون قولة الحسن: " لما حضره الموت.. " 

2622. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَنْبَأَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي إِنَّ عَبْدًا قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا ثُمَّ عَرَضَتْ لَهُ التَّوْبَةُ، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنِّي قَتَلْتُ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ؟ قَالَ: بَعْدَ تِسْعَةٍ وَتِسْعِينَ نَفْسًا قَالَ: فَانْتَضَى سَيْفَهُ فَقَتَلَهُ، فَأَكْمَلَ بِهِ الْمِائَةَ، ثُمَّ عَرَضَتْ لَهُ التَّوْبَةُ، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنِّي قَتَلْتُ مِائَةَ نَفْسٍ، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ؟ قَالَ: فَقَالَ: وَيْحَكَ، وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَكَ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ؟ اخْرُجْ مِنَ الْقَرْيَةِ الْخَبِيثَةِ الَّتِي أَنْتَ فِيهَا إِلَى الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ قَرْيَةِ كَذَا وَكَذَا، فَاعْبُدْ رَبَّكَ فِيهَا، فَخَرَجَ يُرِيدُ الْقَرْيَةَ الصَّالِحَةَ، فَعَرَضَ لَهُ أَجَلُهُ فِي الطَّرِيقِ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ، قَالَ إِبْلِيسُ: أَنَا أَوْلَى بِهِ، إِنَّهُ لَمْ يَعْصِنِي سَاعَةً قَطُّ، قَالَ: فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ: إِنَّهُ خَرَجَ تَائِبًا قَالَ هَمَّامٌ: فَحَدَّثَنِي حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ: فَبَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَلَكًا، فَاخْتَصَمُوا إِلَيْهِ ثُمَّ رَجَعُوا، فَقَالَ: انْظُرُوا، أَيَّ الْقَرْيَتَيْنِ كَانَتْ أَقْرَبَ، فَأَلْحِقُوهُ بِأَهْلِهَا، قَالَ قَتَادَةُ: فَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ احْتَفَزَ بِنَفْسِهِ فَقَرُبَ مِنَ الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ، وَبَاعَدَ مِنْهُ الْقَرْيَةَ الْخَبِيثَةَ، فَأَلْحَقُوهُ بِأَهْلِ الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ.

مترجم:

2622.

ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے ، انہوں نے فرمایا: کیا میں تم کو ایک حدیث نہ سناؤں جو میں نے رسول اللہ ﷺ کے دہن مبارک سے سنی ہے؟ اسے میں نے خود اپنے کانوں سے سنا، اور میرے دل نے اسے یاد رکھا۔ ( نبی ﷺ نے فرمایا:) ’’ایک بندے نے ننانوے انسان قتل کیے۔ آخر اسے توبہ کا خیال آ گیا، چنانچہ اس نے دنیا کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اسے ایک آدمی کا پتہ دیا گیا۔ وہ اس کے پاس گیا اور کہا: میں ننانوے انسان قتل کر چکا ہوں۔ کیا میری توبہ ممکن ہے؟ اس نے کہا: ننانوے انسان (قتل کرنے) کے بعد (توبہ کا طریقہ پوچھتے ہو؟) اس نے تلوار نکال کر اسے بھی قتل کر دیا اور سو کی تعداد پوری کر دی۔ اس کے بعد پھر توبہ کی خواہش پیدا ہوئی تو اس نے دنیا کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا۔ اسے ایک آدمی کا پتہ دیا گیا، چنانچہ وہ اس کے پاس گیا اور کہا: میں نے سو افراد کو قتل کیا ہے تو کیا میری توبہ ممکن ہے؟ اس نے کہا: تیرا بھلا ہو! تیرے اور توبہ کے درمیان کون رکاوٹ بن سکتا ہے؟ تو جس گندی بستی میں رہائش پذیر ہے اسے چھوڑ کر نیک لوگوں کی فلاں بستی میں چلا جا اور وہاں اپنے رب کی عبادت کر۔ وہ نیک لوگوں کی بستی میں جانے کے ارادے سے (اپنی بستی سے) نکل کھڑا ہوا۔ راستے میں اسے موت آ گئی۔ اس کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں اختلاف ہو گیا۔ ابلیس نے کہا: اس کا مجھ سے گہرا تعلق ہے۔ اس نے ایک گھڑی بھی میری نافرمانی نہیں کی۔ رحمت کے فرشتوں نے کہا: یہ تائب ہو کر گھر سے نکلا ہے۔‘‘ (حدیث کے راوی) ہمام بیان کرتے ہیں کہ مجھے حمید الطویل نے بکر بن عبداللہ سے انہوں نے ابوو رافع سے بیان کیا، وہ فرماتے ہیں: اللہ عزوجل نے ایک فرشتہ بھیجا۔ ان فرشتوں (کی دونوں جماعتوں) نے اس کے سامنے معاملہ پیش کیا اور اس کی طرف رجوع کیا۔ اس نے کہا: دیکھو یہ آدمی دونوں بستیوں میں سے کس کے زیادہ قریب تھا، اسے اس بستی والوں میں شامل کر لو۔ امام حسن بصری نے فرمایا: اسے جب موت آئی تھی تو وہ (مرتے مرتے بھی) گھسٹ کر نیک لوگوں کی بستی سے قریب ہوا، اور برے لوگوں کی بستی سے دور ہوا، چنانچہ فرشتوں نے اسے نیک بستی والوں میں شمار کر لیا۔