تشریح:
(1) (إسبَاغُ الوُضُوء) سے مراد وضو کرتے وقت اعضاء کو اس طرح دھونا ہے کہ کوئی حصہ خشک نہ رہ جائے۔ اس مقصد کے لیے توجہ اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ خصوصاً جب پانی کم ہو یا سردی کی وجہ سے ٹھنڈا پانی استعمال کرنا دشوار ہو یا انسان جلدی میں ہوتو اعضائے وضو پوری طرح نہیں دھوئے جاتے ۔ایسے مواقع پر وضو پوری طرح سنوار کر کرنا یقیناً ایمان کی علامت ہے۔
(2) صحیح مسلم میں یہ حدیث ان الفاظ سے مروی ہے: (اَلطَّهُورُ شَطْرُ الْإِيْمَانِ) (صحيح مسلم، الطهارة، باب فضل الوضوء، حديث:٢٢٣) ’’پاکیزگی ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ اس میں وضو اور غسل کے علاوہ ظاہری نجاست سے جسم اور لباس کو پاک رکھنا بھی شامل ہے۔
(3) ترازو سے مرا د اعمال کا وزن کرنے والی ترازو کا نیکیوں کا پلڑا ہے۔ (اَلحَمدُ لِلہ) میں اللہ کی تعریف بھی ہے کہ وہ ان تمام صفات حمیدہ سے متصف ہے جو اس کی شان کے لائق ہیں بلکہ مخلوقات میں بھی جو قابل تعریف صفات پائی جاتی ہیں وہ اسی کی دی ہوئی اور اسی کی پیدا کی ہوئی ہیں اس لحاظ سے بھی اور ان صفات کی وجہ سے بھی وہی قابل تعریف قرار پاتا ہے۔ چونکہ یہ کلمہ (اَلحَمدُ لِلہ) اللہ تعالی کی بے شمار صفات کا اظہار ہے اس لیے اس کا مقام اس قدر بلند ہے کہ اگر پورے شعور واحساس کے ساتھ یہ لفظ ادا کیاجائے تواکیلا ہی نیکیوں کا پلڑا پر کرنے کے لیے کافی ہے۔علاوہ ازیں (اَلحَمدُ لِلہ) اللہ کے لیے شکر کا اظہار بھی ہے جس میں یہ اقرار بھی شامل ہے کہ ہر نعمت اللہ ہی سے ملی ہے اور یہ اس کا احسان اور فضل ہے ورنہ مخلوق ذاتی طور پر کسی نعمت کا استحقاق نہیں رکھتی حتی کہ ہمارا وجود اور تخلیق بھی سراسر احسان اور فضل ہی ہے لہذا مخلوق کو فخر و تکبرکے بجائے شکر وامتنان ہی زیبا ہے اس لیے (اَلحَمدُ لِلہ) کا لفظ اتنی عظمت کا حامل ہے کہ نیکیوں کے پلڑے کو پر کردیتاہے۔
(4) (سُبْحَانَ اللہ) کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی ان تمام اوصاف وافعال سے پاک ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں۔ اس طرح یہ لفظ تمام سلبي صفات کا جامع ہے جس طرح (اَلحَمدُ لِلہ) تمام ايجابی اور اثباتی صفات کا جامع ہے۔ ان دونوں کے اجتماع سے اللہ تعالی کی ہمہ پہلو صفات کا اقرار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ (سُبْحَانَ اللہ وَاَلحَمدُ لِلہ) اتنا عظيم الشان ذكرہے کہ آسمان سے زمین تک سب کو محیط ہے کیونکہ تمام کائنات میں اللہ کی صفات مقدسہ ہی کی کار فرمائی اور انہی کا ظہور ہے۔
(5) نماز کو نور قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ گناہوں سے باز رکھتی ہے۔ارشاد ربانی ہے: ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ۗ﴾ (العنكبوت :29؍45) ’’يقيناً نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘ جس طرح روشنی کی وجہ سے انسان اپنے فائدے اور نقصان کی چیزوں کو معلوم کرلیتا ہے اسی طرح نماز کی وجہ سے دل میں نیکیوں سے محبت اور گناہوں سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔
(6) زکاۃ دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس شخص کے ایمان کا دعوی سچ ہے۔ اللہ کی راہ میں خلوص کے ساتھ مال خرچ کرنا تبھی ممکن ہے اگر دل میں یہ یقین اور ایمان موجود ہو کہ آخرت میں اس کی جزا ملے گی ۔ اسی طرح نفلی صدقات بھی قیامت کے دن نجات کا باعث بنیں گے۔
(7) صبر سے مراد اللہ کی اطاعت اور نیکی پر استقامت بھی ہےاور گناہ کی طرف دعوت دینے والے اسباب اور خواہشات کا مقابلہ کرتے ہوئے تقوی اختیار کرنا بھی اس کے علاوہ دنیا میں پیش آنے والے حادثات و مصائب کے موقع پر جزع وفزع سے پرہیز کرنا اور گناہ کی طرف راغب نہ ہونا بھی صبر میں شامل ہے۔ یہ وصف ایک روشنی کی طرح زندگی کے سفر میں ہر قدم پر رہنمائی کرتا ہے۔ بعض علما نے صبر کی وضاحت روزہ سےکی ہے کیونکہ روزہ بھی گناہ کے جذبات کو مغلوب کرکے دل کو روشن کردیتا ہے۔
(8) قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ اس پر عمل کیا جائے، چنانچہ جو شخص اس کی تلاوت کرتا اور اس پر عمل کرتا ہے قرآن مجید قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دے گا۔قرآن مجید کی بعض سورتوں کے مثلاً: سورۃ بقرہ اور آل عمران کے بارے میں بھی وارد ہے کہ وہ پڑھنے والے کے حق میں گواہی دیں گی اور شفاعت کریں گی۔ دیکھیے: (صحیح مسلم، صلاۃ المسافرین، باب فضل قراءۃ القرآن و سورۃ البقرۃ، حدیث:804)
(9) انسان کی نجات کا دارومدار اس کے عملوں پر ہے۔اس کو حدیث میں ایک مثال کے ذریعے سے واضح کیا گیا ہے۔ ہر شخص کے سامنے صبح کے وقت دونوں راستے کھلے ہوتے ہیں نیکی کا بھی اور برائی کا بھی ۔ اور یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہےکہ وہ خود کو اس دن کے لیے اللہ کے ہاتھ فروخت کرتا ہے یا شیطان کے ہاتھ۔ جس نے اللہ کی اطاعت اختیار کرلی اور اسکی پسند کے نیک اعمال کیے اس نے نجات حاصل کرلی اور جس نے اپنی لگام شیطان کے ہاتھ میں دےدی اور اس کی پسند کے کام کرتا رہا۔ اس نے خود کو تباہ کرلیا۔