(1) مشقت میں ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلي صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ اس پر عمل کرنا امت کے لیے دشوار ہوگا کیونکہ ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں جب مسواک موجود نہ ہو یا آسانی سے دستیاب نہ ہوتو لوگوں کے لیے مشکل بن جائے گی۔
(2) حکم دینے کا مطلب ہے کہ ضروری قرار دے دینا کیونکہ استحبابی حکم تو اب بھی موجود ہے لیکن واجب نہیں کہ اس کے بغیر وضو ہی نہ ہو۔
(3) رسول اللہﷺ امت کے حق میں انتہائی شفیق تھے۔ اس لیے آپ نے حسب امکان مشکل احکام نہیں دیے۔ آپﷺ اللہ تعالی سے بھی یہی دعائیں کرتے رہے کہ مشکل احکام میں نرمی کی جائے جیسا کہ معراج کی رات اللہ تعالی کی بارگاہ میں باربار درخواست فرما کر پچاس نمازوں کے حکم میں تخفیف کروائی۔
(4) شریعت محمدیہ کی یہ خوبی ہے کہ اس میں آسانیاں بہم پہنچائی گئی ہیں جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: (إِنِّي اُرْسِلْتُ بِحَنِيْفِيَّةٍ سَمْحَةٍ) (مسند احمد:116/2) ’’بلاشبہ مجھے آسان حنفی دین دے کر بھیجا گیا ہے‘‘ تاہم آسانی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی حکم ایسا نہیں جو نفس پر شاق ہو، کیونکہ نفس امارہ تو ہر نیکی سے بدکتا اور ہر گناہ کی طرف بھاگتا ہے۔ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ شریعت کے جس حکم پر عمل نہیں کرنا چاہتے اس کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ مجبوری ہے اور دین میں تنگی نہیں۔ یہ طرز عمل درست نہیں اپنے نفس کی پیروی ہے۔ارشاد باری تعالی ہے: ﴿أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ﴾ (البقرة:85/2) ’’كيا تم کچھ کتاب پر ایمان لاتے ہو اور کچھ کا انکار کردیتے ہو؟ تم میں سے جو کوئی ایسا کام کرے اس کا بدلہ دنیا کی زندگی میں رسوائی ہے اورآخرت میں انہیں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیا جائے گا‘‘
(5) ’’ہر نماز کے وقت‘‘ ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ اگر وضو سے پہلے مسواک نہیں کی گئی لیکن نماز شروع کرتے وقت مسواک کرلی ہے تو پھر بھی درست ہے۔
(6) اس روایت سے ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا استحباب معلوم ہوتا ہے۔