تشریح:
(1) اسلام دین فطرت ہے اس لیے اس نے انسان کی زندگی کے کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا۔ حتی کہ وہ مسائل بھی جنھیں زیر بحث لانا عام طور پر پسند نہیں کیا جاتا۔ ان میں بھی ہدایت کی ضروری تفصیل موجود ہے۔ علاوہ ازیں اسلامی تعلیمات میں نہ یہودیت کی سی ناروا سختی ہے نہ نصرانیت کی سی بے لگام اباحیت۔ بلکہ ایک حسین اعتدال موجود ہے۔
(2) غیر مسلم اقوام کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ وہ اسلام کی خوبیوں کو بھی خامیاں بنا کر پیش کرتے ہیں۔ بعض مسلمان جو ذہنی طور پر ان سے مرغوب ہوتے ہیں وہ اس کے جواب میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور تاویل یا انکار کے ذریعےسے اسلام کو ان کے غیراسلامی تصورات کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسلام کے احکام کی خوبیاں اور غیر اسلامی افکار کی خامیاں واضح کی جائیں کیونکہ اسلام ہی راہ ہدایت ہے اور کافروں کا گمراہ ہونا کسی دلیل کا محتاج نہیں۔ حضرت سلمان ؓ نے بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنے کے بجائے انھیں مسکت جواب دیا یعنی ہمیں تو اللہ کے نبیﷺ نے بیت الخلاء کے آداب سکھائے ہیں اور یہ کوئی شرم کی بات نہیں۔ شرم کی بات تو یہ ہے کہ تم جیسے لوگوں کو قضائے حاجت کی بھی تمیز نہیں۔
(3) حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے جو قضائے حاجت کے چار آداب ذکر کیے ہیں۔ ان سے اسلامی تہذیب کی دوسری تہذیبوں پر برتری واضح ہے۔ اپنے اپنے قبلے کا احترام ہرمذہب کے ہاں مسلم ہے۔ لیکن اس احترام کے لیے جس طرح کی ہدایات اسلام نے دی ہیں دوسرے مذاہب میں موجود نہیں۔ عبادت کے موقع پر جس طرف منہ کیا جاتا ہے۔ قضائے حاجت کے وقت اس طرف منہ کرنے سے اجتناب اس احترام کا ایک واضح مظہر ہے۔ یہود ونصاری میں ان کے قبلے کے لیے اس قسم کے احترام کی کوئی مثال موجود نہیں ۔ دائیں اور بائیں ہاتھ کو الگ الگ کا موں کے لیے مخصوص کرنا بھی اسلامی تہذیب کی ایک نمایاں خوبی ہے۔ دایاں ہاتھ کھانے پینے کے لیے مخصوص ہے اور بایاں ہاتھ صفائی سے متعلقہ امور کے لیے۔ غیر مسلموں میں اس طرح کا کوئی امتیاز نہیں۔ خاص طور پر نصاری میں تو قضائے حاجت کے بعد جسم کی صفائی کی بھی وہ اہمیت نہیں جو فطرت سلیم کا تقاضہ ہے۔ اس کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر کھانا کھا لینا تہذیب سے کس قدر دور ہے یہ محتاج وضاحت نہیں۔ تین ڈھیلے استعمال کرنے کا حکم بھی صفائی کی اہمیت واضح کرتا ہے۔ یعنی قضائے حاجت کے بعد جسم کی اس قد ر صفائی ہوجا نی چاہیے کہ نجاست رہ جانے کا احتمال نہ رہے اسی طرح لید گوبر اور ہڈی سے استنجاء کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ مسلمان جنوں اور ان کے جانوروں کی خوراک ہے نیز غذائی اشیاء کے لیے استنجا کے لیے استعمال کرنا ایک قابل نفرت فعل ہے جسے کوئی صاحب عقل پسند نہیں کرسکتا۔ نبی اکرم ﷺ نے مسلمان جنوں سے فرمایا تھا: تمھارے لیے ہر وہ ہڈی ہے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو وہ تمھارے ہاتھ میں آئے گی تو بہت زیادہ گوشت والی ہوجائے گی اور ہر مینگنی تمھارے جانوروں کے لیے چارہ ہوگی۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم ان دونوں چیزوں سے استنجاء نہ کرو کیونکہ یہ تمھارے بھائیوں کا طعام ہے۔ (صحیح مسلم، الصلاۃ، باب الجھر بالقراءۃ فی الصبح والقراءۃ علی الجن،حدیث:450)
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرط البخاري. وقد أخرجه مسلم، وأبو عوانة
في "صحيحيهما"، وصححه الترمذي والدارقطني) .
إسناده: ثنا مسدد بن مسرهد: ثنا أبو معاوية عن الأعمش عن إبراهيم عن
عبد الرحمن بن يزيد عن سلمان.
وهذا إسناد صحيح على شرط البخاري؛ فقد احتج بمسدد بن مسرهد، وبقية
رواته متفق عليهم.
والحديث أحرجه مسلم والنسائي والترمذي والدارقطني والبيهقي، وأحمد
(5/439) كلهم عن أبي معاوية به.
وأخرجه مسلم والنسائي والدارقطني، وكذا أبو عوانة في "صحيحه "، وابن
ماجه، وأحمد (5/437- 438) من طرق أخرى عن الأعمش ومنصور عن
إبراهيم به. وقال الترمذي:
" حديث حسن صحيح ". والدارقطني:
" إسناد صحيح ".