تشریح:
(1) اللہ کے علم پر اعتماد کرنے سے مراد یہ ہے کہ تم اپنے اندازے سے حیض اور طہر کے ایام شمار کرو۔ اگر اس میں کچھ کمی بیشی ہوگئی تو اللہ معاف کرنے والا ہے۔ اسے یہ بھی علم ہے کہ حیض کے اصل ایام کون سے ہیں،اور وہ تمھارے عذر سے بھی باخبر ہے۔
(2) ارشاد نبوی ’’یہ طریقہ مجھے زیادہ پسند ہے‘‘ ظاہر کرتا ہے کہ روزانہ تین بار غسل کرنا فرض نہیں لیکن اس میں طہارت اور صفائی کا بہت زیادہ اہتمام ہے، اس لیے نبیﷺ نے پسند فرمایا۔
(3) اس حدیث میں ظہر اور عصر کے لیے ایک غسل اور مغرب وعشاء کے لیے ایک غسل کا ذکر ہے۔ دوسری روایات میں فجر کے لیے بھی ایک غسل کا ذکر ہے۔ (جامع الترمذي، الطهارة ، باب ماجاء في المستحاضة انهاتجمع بين الصلاتين بغسل واحد‘‘ حديث:128)
(4) یہ روایت بعض حضرات کے نزدیک حسن ہے اور اس میں یا اس جیسی دیگر روایات میں ہر دو نماز کے لیے ایک غسل اور فجر کے لیے ایک غسل (تین غسلوں) کا حکم استحباب پر محمول ہے ورنہ استحاضہ والی عورت کے لیے ایک ہی غسل کافی ہے’’یعنی اس وقت جب وہ حیض سے پاک ہو۔
الحکم التفصیلی:
قلت: وصله الدارمي بإسناد صحيح نحوه) .
وصله الدارمي (1/202) قال: أخبرنا محمد بن عيسى: ثنا معتمر عن
أبيه:... به نحوه.
وهذا إسناد صحيح، رجاله كلهم ثقات. الإرواء (188) ، الروض النضير (760)