تشریح:
(1) جو شخص بددعا کا مستحق ہو اسے بددعا دینا جائز ہے۔
(2) دینی نقصان دنیاوی نقصان سے زیادہ اہم ہے۔
(3) نماز عصر کی اہمیت دوسری نمازوں سے زیادہ ہے۔
(4) اس واقعہ کا یہ پہلو انتہائی قابل توجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنھیں اللہ تعالی نے (رحمة للعالمين) فرمایا ہے جب ان کی زندگی کا شدید ترین دن تھا یعنی جب نبی کریمﷺ طائف تشریف لے گئےاور مشرکین نے نہ صرف یہ کی آپ ﷺ کی بات سنی اور انتہائی گستاخی سے پیش آئے بلکہ بچوں کو نبی کریمﷺ کے پیچھے لگا دیا جنہوں نے اس حد تک سنگ ہاری کی کہ نبی اکرمﷺ کا جسد اطہر لہولہان ہوگیا اس وقت بھی آپ نے ان کو بددعا دینے سے اجتناب کیا لیکن جنگ خندق میں مصروفیت کی وجہ سے نماز عصر رہ گئی تو طائف میں خاموش رہنے والی زبان سے بھی بددعا نکل گئی۔اور بددعا بھی اتنی شدید کہ اللہ کرے کہ ان کے گھروں میں آسمان سے آگ برسے اور جب مرجائیں تو قبروں میں بھی آگ کا ایندھن بنے رہیں۔ ان لوگوں کو غور کرنا چاہیے جو محض کاہلی کی وجہ سے یا کھیل کود میں مصروفیت کی وجہ سے یا کاروبار یا کسی دوسری مشغولیت کی وجہ سے نماز چھوڑدیتے ہیں ان کا یہ عمل آپﷺ کی نظر میں کس قدر قابل نفرت اور کتنا عظیم جرم ہے۔ اللہ ہمیں اپنے غضب سے محفوظ رکھے۔آمین۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده صحيح على شرطهما. وقد أخرجه البخاري في صحيحه
(2/273)
بإسناد المصنف، وأخرجه مسلم وأبو عوانة في صحيحيهما . وقال الترمذي:
حديث حسن صحيح )
إسناده: حدثنا القعنبي قال: قرأت على مالك بن أنس عن ابن شهاب: قال
عروة: ولقد حدثتني عائشة.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرطهما.
والحديث أخرجه البخاري (2/2- 5) عن عبد الله بن مسلمة- وهو القعنبي-.
وأخرجه عنه البيهقي أيضا (1/441) . وهو في الموطأ (1/13- 19) . ومن
طريقه: أخرجه مسلم (2/103) أيضا، وأبو عوانة (1/340- 341) ، والدارمي
(1/268) ، والبيهقي (1/363) أيضا، والطحاوي (1/113) .
ثم أخرجه البخاري (2/20) ، ومسلم (2/194) ، وأبو عوانة (1/350-
351) ، والنسائي (1/88) ، والترمذي (1/298) ، وابن ماجه (1/232) ،
والطحاوي، وأحمد (6/37 و 85 و 199) من طرق أخرى عن ابن شهاب... به.
وقال الترمذي:
حديث حسن صحيح .
وقد تابعه هشام بن عروة عن أبيه:
أخرجه الشيخان وأبو عوانة والطحاوي وأحمد (6/204 و 278- 279) من
طرق عنه؛ وزاد أحمد في رواية:
وكان الجدار بَسْطَةً؛ وأشار عامر بيده.
لكنْ عامر هذا- وهو ابن صالح بن عبد الله بن عروة بن الزبير- ضعيف لا
يحتج به، وقد تفرد بهذه الزيادة، فهي منكرة.