تشریح:
(1) اللہ تعالی نیک مومن کی رہنمائی بعض اوقات خواب کے ذریعے سے بھی کردیتا ہے اس لیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں: نیک خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ (صحيح مسلم، الرؤيا، باب في كون الرؤيا من الله ۔۔۔۔۔۔الخ، حدیث:2265)
(2) محض خواب سے کوئی شرعی مسئلہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کا خواب نبی اکرمﷺ کی منظوری سے شرعی حکم قرار پایا اس لیے اگر کوئی خواب بظاہر شریعت کے حکم کے خلاف ہو تو یا تو وہ اللہ کی طرف سے نہیں شیطان کی طرف سے ہوتا ہے یا اس کا وہ مطلب نہیں ہوتا جو بظاہر معلوم ہوتا ہے۔
(3) نرسنگا ایک قسم کا بگل ہوتا ہے جس میں پھونک ماری جاتی ہے تو زور کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ یہودی اس کے ذریعے سے اپنی عبادت کے وقت اعلان کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس کی تجویز پیش ہوئی اور آپ ﷺ نے بھی سوچا کہ اگر یہ تجویز قبول کرلی جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن اسے عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔
(4) دوسری تجویز ناقوس کی پیش کی گئی۔ ناقوس دو لکڑیاں ہوتی ہیں جنھیں ایک دوسرے پر مارا جاتا ہے تو آواز پیدا ہوتی ہے۔ عیسائی بعض خاص موقعوں پر ناقوس بجاتے ہیں۔ یہ تجویز پہلی تجویز کی نسبت بہتر تھی کیونکہ یہ عیسائیوں کا طریقہ ہے اور وہ یہود کی نسبت مسلمانوں سے ذہنی طور پر قریب ہوتے ہیں اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس تجویز کو زیادہ پسند فرمایا تاہم محسوس یہی کیا گیا کہ ہمارا طریقہ دوسری قوموں سے ممتاز ہونا چاہیے۔
(5) ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی کہ نماز کے وقت آگ جلائی جائے۔ دن میں دھوئیں کی وجہ سے اور رات کو روشنی سے لوگ متوجہ ہوجائیں اور نماز کے لیے آ جائیں لیکن یہ تجویز مجوس سے مشابہت کی وجہ سے رد کردی گئی۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک تجویز پیش کی کہ ایک آدمی اذان کے وقت اعلان کردیا کرے۔ یہ تجویز پسند کی گئی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلال! اٹھو نماز کے لیے آواز دو۔ اس اعلان کے لیے اذان کے کلمات حضرت عبد اللہ بن زید اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خواب کے بعد موجودہ صورت میں متعین ہوگئے۔ (صحیح البخاری، الاذان، باب بدء الاذان، حديث :604)
(6) دینی امور میں بھی انتظامی معاملات مسلمانوں کے آپس کے مشورے سے طے کرنے چاہییں البتہ جس معاملے میں شریعت کی واضح ہدایت آ جائے وہاں مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔
(7) اس واقعہ میں حضرت عبد اللہ بن زید بن عبدربہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا اثبات ہے۔
(8) مؤذن ایسا شخص مقرر کرنا چاہیے جس کی آواز زیادہ بلند ہو۔
(9) اللہ تعالی کسی کو کوئی خاص شرف عطا فرمائے تو فخر کی نیت سے نہیں بلکہ شکر کی نیت سے اللہ کی نعمت اور احسان کا ذکر کرنا درست ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت : وهذا إسناد حسن فقد صرح فيه ابن اسحاق بالتحديث فزالت شبهة تدليسه وأخرجه الترمذي ( 1 / 358 - 360 ) وقال : " حديث حسن صحيح " . وقد صححه جماعة من الأثمة كالبخاري والذهبي والنووي وغيرهم وقد سقت النقول بذلك عنهم في " صحيح أبي داود " ( 512 )