تشریح:
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے جس یقین کے ساتھ اس لڑکے کو جنتی کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آیا اور فرمایا کہ اس کا علم محض اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے کہ مسلمانوں کے سب بچے جنتی ہیں، چنانچہ متعدد احادیث بھی اس فیصلے کی موید ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث شاید تب فرمائی ہو جب اس کا آپ کو علم نہ ہو اور بعد میں اللہ تعالیٰ نے علم عنایت فرما دیا ہو۔
(2) اس روایت سے تقدیر کا ثبوت ملتا ہے۔
الحکم التفصیلی:
قال الألباني في "السلسلة الصحيحة" 1 / 732 :
أخرجه الحاكم ( 2 / 414 ) من طريق إسحاق بن سليمان الرازي قال : سمعت مالك
ابن أنس و تلا قول الله عز و جل :
( و جعلنا منهم أئمة يهدون بأمرنا لما صبروا ) فقال : حدثني الزهري أن عطاء
ابن يزيد حدثه عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعا به .
و قال : " صحيح على شرط الشيخين " . و وافقه الذهبي . و هو كما قالا .
و له شاهد أخرجه القضاعي ( 67 / 1 ) عن إبراهيم بن عبد الله السعدي قال :
أنبأنا الحسين بن علي أبو علي الأصم قال : أنبأنا هشام بن سعد عن زيد بن أسلم
عن عطاء بن يسار عن أبي سعيد الخدري مرفوعا به .
قلت : و هذا إسناد رجاله ثقات غير الحسين بن علي أبي علي الأصم فلم أجد له
ترجمة . و السعدي له ترجمة في " اللسان " .