تشریح:
فوائد و مسائل: (1) جناب سعد بن ہشام جیسا انداز فکر و علم کہ انسان نفس ودنیا کی لذتوں سے بالکل ہی منقطع ہو جائے، اسوۂ رسول ﷺ اور عمل صحابہ کے خلاف ہے۔
(2) تحقیق مسائل میں سائل کو افضل واعلیٰ علمی شخصیت کی طرف تحویل (Refer) كرنا آداب علمی کا حصہ ہے۔
(3) رات کی نماز کے کئی نام ہیں۔ قیام اللیل، تہجد او روتر۔ رمضان کی مناسبت سے ’’تراویح‘‘ کا لفظ بعد کے زمانے میں مروج ہوا ہے۔
(4) رسو ل اللہﷺ کا خلق قرآن تھا، یعنی آپ اس کے اوامر و نواہی اور دیگر آداب کے مجسم نمونہ تھے۔
(5) تہجد اوروتر پڑھنے کے تقریباً تیرہ طریقے ہیں۔ دیکھئے (محلی:2/82۔91/مسئلہ:29) اور ان میں کوئی تعارض نہیں۔
(6) نورکعت مسلسل کی نیت باندھنا بالکل جائز اور سنت ہے۔ اس صورت میں آٹھویں رکعت پر تشہد پڑھ کر نویں رکعت پڑھی جائے او رپھر سلام پھیرا جائے۔ سات رکعت کی نیت ہو تو چھٹی پر تشہد کے لیے میٹھے اور ساتویں پر سلام پھیرے۔ تین اور پانچ رکعتوں میں صرف ایک آخری تشہد ہوتا ہے۔
(7) وتروں کے بعد کبھی کبھی دورکعت بھی مستحب ہیں۔
(8) تہجد قضا ہو جائے تو فجر کی نماز سے پہلے یا بعد وتر ادا کرلے۔ یا پھر دن میں بارہ رکعت پڑھ لی جائیں۔
(9) حضرت ابن عباس کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مابین ظاہر ہوئے تھے۔ واللہ اعلم، تاہم اس کے باوجود اعزاز شخصی اور جلالت علمی کا کامل اعتراف و اقرار ملحوظ خاطر تھا۔ رضي اللہ عنهم و أرضاهم
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح، رجاله رجال الصحيح . وقد أخرجه مسلم في صحيحه ، وكذ ا أبو عوانة؛ دون قوله: قال: قلت: لو علمت...) . إسناده: حدثنا حفص بن عمر: ثنا همام: تنا قتادة عن زُرَارة بن أوفى عن سعد بن هشام.
قلت: وهذا إسناد صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين؛ غير أن مسلماً لم يخرج لحفص بن عمر- وهو أبو عمرو الحَوْضِى-، وهو ثقة ثبت. والحديث أخرجه مسلم (2/168- 170) ، وأبو عوانة (2/321- 325) ، والنسائي (1/237) ، وأبن نصر في قيام الليل (ص 48) ، وأحمد (6/53) من طرق عن قتادة... به؛ وعند مسلم زيادة إعداد السواك له. وتابعه الحسن البصري عن سعد بن هشام... به نحوه. أخرجه أحمد (6/235) ؛ وصرح الحسن بالتحديث في رواية عنده (6/168) . وسيأتي في الكتاب (1223) .