Abu-Daud:
Funerals (Kitab Al-Jana'iz)
(Chapter: Performing The Funeral Prayer For A Muslim Who Dies In The Land Of Shirk)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3204.
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شاہ نجاشی کی وفات کے روز اس کے متعلق لوگوں کو خبر دی اور پھر انہیں لے کر عید گاہ کی طرف گئے ‘ ان کی صفیں بنائیں اور ( نماز جنازہ میں ) چار تکبیریں کہیں ۔
تشریح:
جب کسی صاحب علم یا فضل یا اہم شخصیت کی دوسرے شہر یا ملک میں وفات ہوجائے۔ تو اس کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھنی جائز ہے۔اسی طرح قبر پر نماز جنازہ بھی ایک اعتبار سے نماز جنازہ غائبانہ ہی ہے مگر اسے (غائبانہ نماز جنازہ کو)عام مسلمانوں کے لئے عام کردینا بھی درست نہیں۔(تفصیل کےلئے دیکھئے۔نیل الاوطار باب الصلواۃ علی الغائب)
انسانی زندگی کی ابتدا اور انتہا دونوں ہی دور رس اثرات کی حامل ہیں ‘جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو خاندان بھر میں خوشی و مسرت کا عجیب سماں پیدا ہو جاتا ہے ۔ ہر طرف مبارکباد اور خوشیوں کا بتادلہ ہوتا ہے ‘پھر وقت مقررہ پر اس کے رخصت ہوتے کا وقت آتا ہے تو ہر طرف غم کی فضا پھیل جاتی ہے اس نازک وقت میں اکثر و بیشتر لوگ کم علمی ‘جہالت اور شرکیہ معاشرتی فضا کی وجہ سے الیسے افعال میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں ‘یہ سلسلہ ہائے بدعات و شرک موت کے بعد بھی طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے اور شکم پر ور جہلاء کی خوب چاندی رہتی ہے ۔
انسان جب بستر مرگ پر ہوتا ہے تو لواحقین بے بسی کی کیفیت سے دو چار ہوتے ہیں ‘حتی المقدار دوا دارو کرنے کے باوجود مریض لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب ہوتا جاتا ہے تیمار داری کرنے والے دبے لفظوں میں مایوسی کا اظہار کرنے لگتے ہیں ‘لواحقین ہر حکیم ‘ ڈاکٹر حتی کہ شرکیہ دم جھاڑ اور مزاروں سے خاک شفا تک حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شائد ہمارا مریض بچ جائے مگر جو وقت مقرر ہو چکا ‘ وہ آکے رہتا ہے (وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ)(اعراف:34) ’’ اور ہر گروہ کی ایک میعاد مقرر ہے سو جس وقت ان کی میعاد ِمعین آ جائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آ گے بڑھ سکیں گے۔‘‘
٭تیمار داری کی فضیلت: اسلام نے انسانوں کو باہمی محبت و مودت اور ہمدردی کا درس دیا ہے ‘ اس لیے جب کو ئی مسلمان بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرنا مسلمان پر واجب ہے تیمار داری کرنے والا جہاں اپنے بھائی سے محبت اور الفت کا اظہار کرتا ہے اور باہمی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے وہاں اپنے رب سے اجر عظیم کا حقدار بھی بنتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :’’ جب کوئی مسلمان شا م کے وقت کسی بھائی کی عیادت کے لیے نکلتا ہے تو ستر ہزار فرشتے بھی اس کے ساتھ نکلتے ہیں جو اس کے لیے صبح تک بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور جو کوئی صبح کے وقت عیادت کے لیے نکلے تو اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں جو اس کے لیے بخشش مانگتے رہتے ہیں۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجنائز‘حدیث:3098‘3099)
٭جنازہ میں شرکت کی فضیلت: مسلمان فوت ہوئے تو اس کے کفن و دفن کا انتظام کرنا ضروری ہے ۔ اس کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت مقبول اور اعلیٰ اجر و ثواب کا حامل ہے ۔ جبکہ دوسری طرف موحد مسلمانوں کی التجا و دعا کو قبول کرتے ہوئے رب العالمین فوت ہوتے والے کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ اسی طرح یہ عمل طرفین کے لیے باعث رحمت بن جاتا ہے ۔ارشاد نبوی ہے:( «مَنْ شَهِدَ الجَنَازَةَ حَتَّى يُصَلِّيَ، فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كَانَ لَهُ قِيرَاطَانِ»، قِيلَ: وَمَا القِيرَاطَانِ؟ قَالَ: «مِثْلُ الجَبَلَيْنِ العَظِيمَيْنِ»)(صحيح البخارى ~الجنائز~باب من انتظر حتى يدفن~حديث:1325)’’ جو شخص جنازے میں شامل ہوا نماز پڑھے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو شخص میت کو دفن کرنے تک موجود رہتا ہے اسے دو قیراط ملتے ہیں ۔‘‘صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے حکم رسول! قیراطان کا مطلب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:’’دوقیراط کا ثواب دد عظیم پہاڑوں کے برابر ہے۔‘‘
٭میت کو نفع دینے والے چند امور: ہمارے معاشرے میں ایصال ثواب کے متعدد طریقے رائج ہیں جو اکثر و بیشتر شکم پروو‘ نیم خواندہ مذہبی رہنماؤں کی ایجاد ہیں ‘ طریقوں پر عمل کرنا بجائےثواب کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا قوی سبب ہے ۔ سنت رسول ﷺ میں ایصال ثواب کے لیے درج امو ر بیان ہوئے ہیں(" إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ")(صحيح مسلم ~ الوصية~ باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعدوفاته~حديث:1631)مرنے کے بعد انسان کے اعمال (کے ثواب کا سلسلہ) منقطع و جاتا ہے لیکن تین چیزوں کا ثواب اسے پہنچتا رہتا ہے صدقۂ جاریہ ‘لوگوں کو فائدہ دینے والا علم اور نیک اولاد جو میت کے لیے دعا کرے۔‘‘
٭چند ایسے امور جو شریعت اسلامیہ میں ثابت نہیں ہیں:
٭مرنے والے کے سرہانے قرآن مجید‘ ادعیہ کا مجموعہ‘ یادیگر اور اد و وظائف رکھنا۔
٭چار پائی کے گرد ذکر و اذکار یا نعت خوانی کرنا۔
٭جنازے پر پھول ڈالنا‘مزین چادر ڈالنا یا قرآنی آیات والی چادر ڈالنا۔
٭جنازے لے جاتے ہوئے کلمہ شہادت وغیرہ کا ورد کرنا ، کرانا۔
٭میت کو بلا وجہ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا۔
٭قبر کو مزین بنانا اور آرائشی پتھروں سے آراستہ کرنا، یا قبر پر قرآنی آیات ،کلمہ یانام وغیرہ لکھنا۔
٭تدفین کے بعد قبرپر اذان دینا یا سورۂ بقرہ کی تلاوت کرنا۔
٭سوموار‘جمعرات یا دس محرم کو قبروں کی زیارت کے لیے خاص کرنا۔
٭قبروں پر نعت خوانی اور قوالی کرنا یا چراغ وغیرہ جلانا۔
٭ایصال ثواب کے لیے تیجہ‘ساتواں دسواں یا چالیسواں کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا۔
٭دوسرے یا تیسرے دن کل کروانا۔
٭اجرتی قاریوں سے قرآن خوانی کروانا اور سالانہ ختم دلوانا۔
سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شاہ نجاشی کی وفات کے روز اس کے متعلق لوگوں کو خبر دی اور پھر انہیں لے کر عید گاہ کی طرف گئے ‘ ان کی صفیں بنائیں اور ( نماز جنازہ میں ) چار تکبیریں کہیں ۔
حدیث حاشیہ:
جب کسی صاحب علم یا فضل یا اہم شخصیت کی دوسرے شہر یا ملک میں وفات ہوجائے۔ تو اس کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھنی جائز ہے۔اسی طرح قبر پر نماز جنازہ بھی ایک اعتبار سے نماز جنازہ غائبانہ ہی ہے مگر اسے (غائبانہ نماز جنازہ کو)عام مسلمانوں کے لئے عام کردینا بھی درست نہیں۔(تفصیل کےلئے دیکھئے۔نیل الاوطار باب الصلواۃ علی الغائب)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ( حبشہ کا بادشاہ ) نجاشی ۱؎ جس دن انتقال ہوا اسی دن رسول اللہ ﷺ نے ان کی موت کی اطلاع مسلمانوں کو دی ، آپ ﷺ مسلمانوں کو لے کر عید گاہ کی طرف نکلے ، ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیروں کے ساتھ نماز ( جنازہ ) پڑھی ۲؎ ۔
حدیث حاشیہ:
وضاحت ۱؎ : نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب ہے، ان کا نام اصحمہ تھا، یہ پہلے نصاری کے دین پر تھے، پھر نبی اکرم صلی+اللہ+علیہ+وسلم پر ایمان لائے اور جو صحابہ کرام ہجرت کر کے حبشہ گئے ان کی خوب خدمت کی جب وہ فوت ہوئے تو نبی اکرم صلی+اللہ+علیہ+وسلم نے عیدگاہ جا کر صحابہ کرام کے ساتھ ان کی نماز جنازہ پڑھی چونکہ ان کا انتقال حبشہ میں ہوا تھا، اور آپ صلی+اللہ+علیہ+وسلم نے مدینہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھی تھی اس سے بعض لوگوں نے نماز جنازہ غائبانہ کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ ¤ ۲؎ : نماز جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگر میت کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اور اگر پڑھی جا چکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہو گیا، الا یہ کہ کوئی محترم اور صالح شخصیت ہو تو پڑھنا بہتر ہے یہی قول ابن تیمیہ، ابن قیم اور امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کا ہے، عام مسلمانوں کا غائبانہ جنازہ آپ صلی+اللہ+علیہ+وسلم سے ثابت نہیں، اور نہ ہی تعامل امت سے ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA):
The Messenger of Allah (ﷺ) gave the people news of death of Negus on the day on which he died, took them out to the place of prayer, drew them up in rows and said: "Allah is Most Great" four times.